سیاسی بصیرت و معروض | پہلا قسط – حنیف دلمراد

564

سیاسی بصیرت و معروض – پہلا قسط

تحریر:حنیف دلمراد

دی بلوچستان پوسٹ

برصغیر کے سیاسی منظر نامے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے چلنے والے تضادات کو کسی صورت رد نہیں کیا جاسکتا۔ تضادات کو تسلیم کرنے سے ہی اس نکتہ کا آغاز ہوتا ہے جس میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ اب اس خرابی کو مزید آگے نہیں چلنے دیا جائے گا اور تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سماج کو آگے مزید پیچیدگیوں میں دھکیلا جائے ویسے ازل سے یہی ہے کہ ہر وجود اور افکار اپنے ساتھ تصادات کو لیکر جنم لیتی ہیں اور ایسے ہی کچھ تضادات 1940ءکی دہائی سے برصغیر کے سیاسی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آئے جو آج تک ساتھ ساتھ چل کر انہیں گہرا کرکے خلیج کی صورتحال پیدا کرچکے ہیں جس کا منطقی انجام ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ بنگلہ دیش جس کی بڑی مثال ہے اصل میں یہ تضادات ہی تھے کہ وہ بنگال جس نے 1946ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت دیکر جتوایا پھر تضادات نے ایسی راہ دکھائی کہ 1954ءکو بنگال کے انہی لوگوں نے سیکولر اور لبرل قوتوں نے ایک سیکولر سیاسی قوت جگتو فرنٹ بناکر مسلم لیگ کو شکست و ریخت دکھایا اور یہی جگتو فرنٹ تھی جس نے بنگال کی سیاست سے مسلم لیگ کو نکال باہر کردیا‘ وہ مسلم لیگ جس نے برصغیر کو سماج میں صرف ہندو مسلم تضاد کی بات کی تھی اب وہ نئے تضادات کو نہ سمجھ سکی اور نہ ہی حل کرنے کا کوئی راستہ نکال پائی اور 1954ءکے انتخابات میں سوائے ایک نشست کے باقی تمام پر شکست کھاگئی اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے تضادات کی شکل اختیار کرکی بنگال کو قوم پرستی اور سوشلزم کی سیاست کی جانب دھکیلنے پر مجبور کیا اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ مسلم لیگی رہنما امین ایک طالب علم کے سامنے ہار گئے اب مسئلہ یہ نہیں کہ تصادات کسی بھی سماج میں وجود ہی نہیں رکھتے اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی سماج میں تضادات کے عوامل تک کیسے پہنچا جاتا ہے کس طرح ان کا تدارک کیا جاتا ہے کس طرح ایک نیا سوشل کنٹریکٹ لایا جاتا ہے اس تمام کو سماج کے ماہر سیاستدان اور عوامی رہنما سمجھتے ہیں اور وہی سماج کو منفی جانب بڑھنے اور انتشار سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور جس سماج میں تضادات کو نظر انداز کرکے اہمیت نہیں دی جاتی پھر وہاں ٹوٹ پھوٹ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ اسے روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

پاکستانی سماج یا سیاست میں یہ تضادات ہی تھے جس نے 1954ءکو نیشنل پارٹی کے نام سے خان عبدالغفار خان اور سائیں جی ایم سید کو ایک پارٹی بنانے پر مجبور کیا پھر آگے چل کر اس پارٹی کے پلیٹ فارم پر پاکستان کے ترقی پسند اور قوم پرست جمع ہوئے۔ اس پارٹی کا مقصد پاکستان میں قومی جمہوری انقلاب برپا کرکے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا تھا۔ 1956ءکو عوامی لیگ بھاشانی گروپ کے عبدالحمید بھاشانی کی شمولیت کے بعد اسے مزید فکری بالیدگی ملی اور عبدالحمید بھاشانی کی تجویز پر اس کے نام میں عوامی کے لفظ کا اضافہ کردیا گیا تاکہ اس پارٹی کو قومی اور سوشلسٹ بنیادوں پر آگے لے جایا جائے اور وہ قومی سوال کو اہم سمجھتے تھے۔

اس طرح متفقہ طور پر تمام کی رضا مندی سے نیشنل عوامی پارٹی نیا نام رکھ دیا گیا جو چند سالوں کے دوران مشرقی اور مغربی پاکستان میں مقبول ترین سیاسی قوت بن کر ابھری جس کا منشور سامراجی سرمایہ کاری کو روک کر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا‘ وحدتوں کو آزاد‘ مرکز کو کمزور‘ بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دینا جبکہ مواصلات‘ دفاع‘ کرنسی اور خارجہ پالیسی کے علاوہ تھے جو وفاق کے پاس رہیں گے اور یہ کہا گیا کہ پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن رکھ کر خارجہ پالیسی وحدتوں کی مشاورت سے ہی بنائی جائے گی‘ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا منشور اور سیاسی پروگرام لوگوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکا یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے شاعر‘ دانشور‘ سیاسی و سماجی لوگوں کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا اسی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے پرجوش تھا۔ نیپ اصل میں مغربی پاکستان میں جگتو فرنٹ کا ایک عکس تھا جو ایک سوشلسٹ انقلاب کی بجائے ایک جمہوری انقلاب چاہتی تھی جو یہاں کی سول بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ آگے چل کر 1958ءکو مارشل لاءلگادیا گیا ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔ جگتو فرنٹ کے اثرات مغربی پاکستان میں روک دیئے گئے اور نوخیزی آئین (1956) بھی معطل کردیا گیا اور نیپ پر بھی مکمل بندش لگادی گئی۔ اسے کہتے ہیں دانش مندی کا اعلیٰ اظہار جس نے سماج کو غیر سیاسی بنانے کے منصوبہ پر کام شروع کردیا نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماﺅں میں خان عبدالغفار خان (باچا خان) سائیں جی ایم سید‘ خیر بخش مری‘ غوث بخش بزنجو‘ شیر محمد مری‘ عطاءاللہ مینگل‘ عبدالصمد اچکزئی‘ عبدالمجید سندھی‘ مولانا عبدالحمید بھاشانی‘ میاں افتخار الدین‘ پروفیسر مظفر احمد‘ امام علی نازش‘ افضل بنگش‘ محمود الحق عثمانی‘ میجر اسحاق‘ عبدالرحمان کرد‘ احمد نواز بگٹی‘ تاج محمد لنگاہ‘ ظفر شاہین‘ سائیں کمال شیرانی‘ رسول بخش پلیجو‘ رسول بخش تالپور اور دیگر قد آور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔

پروفیسر مظفر احمد کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش‘ امام علی نازش کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘ میاں افتخار الدین پاکستان آزاد پارٹی کے رہنما تھے جو کلیدی کردار رکھتے تھے میاں افتخار الدین پنجاب سے تعلق رکھنے والے جاگیردار تھے اس کے باوجود سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی جاگیر کسانوں میں تقسیم کردی بلکہ لیل و نہار جیسے رسائل نکالے تاکہ عام عوام جدید علوم و نظریات سے آگاہی حاصل کریں اور شدید حامی تھے کہ جاگیریں کسانوں میں تقسیم ہونی چاہئیں۔ اس سے قبل متحدہ ہندوستان کے دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ مشہور مصنف طارق علی جو آج کل لندن میں مقیم ہیں وہ بھی اسی کی پارٹی میں تھے یہ وہ تمام لوگ تھے جنہوں نے اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر یا ضم کرکے نیپ کے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا تاکہ اس خطے میں ایک نئی تبدیلی لاسکیں تاکہ ایک نیا سحر طلوع ہو۔ اسی طرح جو دانشور و شاعر نیپ میں تھے ان میں اجمل خٹک‘ گل خان نصیر‘ شیخ ایاز‘ حبیب جالب‘ فیض احمد فیض‘ احمد فراز‘ غنی خان‘ احمد سلیم‘ بنگلہ زبان کے شاعر نذر الاسلام‘ ملتان سے تعلق رکھنے والی نسیم گردیزی اور دیگر شامل تھے۔ نسیم گردیزی وہ واحد خاتون تھیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں غداری کے مقدمہ میں حیدرآباد جیل میں مقید رہیں جس نے سیاسی حلقوں کو اتنا متاثر کیا کہ بعد میں جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنماءروزا الیگزمبرگ سے انہیں مشاہبہ کیا جانے لگا روزا جوکہ لینن کی ساتھیوں میں سے تھیں اعلیٰ پایہ کی دانشور تھیں جنہیں بعد میں قتل کیا گیا۔ نیپ کے ساتھ جن طلباءتنظیموں نے اتحاد کیا ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ پختون ایس ایف‘ (رہنما افرا سیاب خٹک) نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف پاکستان (رہنما معراج محمد خان) پختونخواہ اسٹودنٹس آرگنائزیشن (رہنما محمود خان اچکزئی) ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پروفیسر جمال نقوی‘ ڈاکٹر پروفیسر ادیب الحسن رضوی) جئے سندھ جساف (اقبال ترین‘ شاہ محمد) سرحد اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (رہنما اکرم درانی) شامل تھے۔ اس کے علاوہ بنگال کی طلباءتنظیمیں تھیں عوامی پارٹیوں میں سے جنہوں نے نیپ میں شمولیت کی ان میں بلوچوں کی استمان گل‘ عبدالحمید بھاشانی کی عوامی لیگ‘ خان عبدالغفار خان کی خدائے خدمتگار تحریک‘ عبدالصمد اچکزئی کی ورور پشتون‘ محمود الحق عثمان کی سندھ یونٹی بورد‘ سندھی ہاری تحریک‘ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘ سائیں جی ایم سید کی پیپلز پارٹی شامل تھیں۔
1946ءکو سائیں جی ایم سید کی محمد علی جناح کے ساتھ اختلافات سیاسی بنیادوں پر پیدا ہوگئے تو جی ایم سید نے مسلم لیگ کو خیر باد کرکے پروگریسو مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈال دی‘ اس طرح مسلم لیگ کی تاریخ میں جو پہلا دھڑا بنا وہ یہی تھا لیکن آگے چل کر 1954ءکو سائیں جی ایم سید نے پاکستان کے نئے سیاسی ماحول میں پروگریسو مسلم لیگ کو ختم کرکے اس کی جگہ نئی جماعت پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی 1957ءکو جب نیپ کی بنیاد پڑی تو سائیں جی ایم سید نے اپنی پارٹی پیپلز پارٹی کو نیپ میں ضم کردیا۔

مسلم لیگ اور جناح کے ساتھ اختلافات کی سب سے بڑی وجہ 1946ءکے انتخابات تھے‘ یونینسٹ پارٹی نے پنجاب میں کلین سوئپ کیا تھا اور اس جماعت میں زیادہ تر پنجاب کے جاگیردار تھے اور انہی جاگیرداروں نے 1946ءمیں پنجاب میں مسلم لیگ کو چیلنج کیا تھا اور اکثریتی نشستیں جیت لی تھیں اور مسلم لیگ کو ہرادیا۔ یونینسٹ پارٹی میں سرسکندر حیات خان‘ سر فیروز خان نون‘ سر خضر حیات خان‘ محمدوٹ اور دیگر تھے اور جب 1946ءکے بعد یونینسٹ پارٹی نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان معرض وجود میں آرہا ہے تو انہوں نے محمد علی جناح سے ملاقات کرکے اپنی پارٹی (یونینسٹ پارٹی) کو مسلم لیگ میں ضم کردیا اور یہیں سے سائیں جی ایم سید اور محمد علی جناح کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا۔ جی ایم سید نے کہا کہ محمد علی جناح کو چاہئے تھا کہ وہ ان جاگیرداروں کو پارٹی میں آنے سے روک دیتے تاکہ پارٹی جاگیرداروں کے ہاتھوں نہ چلی جاتی، سائیں جی ایم سید کے علاوہ میاں افتخار الدین نے بھی تنقید کرکے مسلم لیگ چھوڑ دی اور اپنی نئی جماعت آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے بنائی۔ میاں افتخار الدین پنجاب کے جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی پسند افکار رکھنے والوں میں سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جاگیرداری نظام کے خلاف تھے اور 1946ءکے انتخابات میں میاں افتخار الدین ہی تھے جنہوں نے جاگیرداروں کی پارٹی یونینسٹ پارٹی کا مقابلہ کرکے مسلم لیگ کی ٹکٹ پر اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے تھے انہوں نے پنجاب میں اشاعت کو ترقی دی اخبارات اور ترقی پسند رسالوں پر اپنی کثیر رقم خرچ کی پنجاب میں جدید پرنٹنگ پریس لگایا میاں افتخار الدین کا ہر طبقہ فکر احترام اور اعتماد کرتا تھا لیکن یونینسٹ پارٹی کی مسلم لیگ میں ضم ہونے اور جاگیرداروں کی مسلم لیگ میں شمولیت کو کسی صورت برداشت نہ کرسکے اور یہ کہہ کر سائیں جی ایم سید کے ساتھ مسلم لیگ کو خیر باد کہا کہ ہم جس نظام کے خلاف تھے اسی نظام کے پروردہ لوگ ہماری پارٹی میں آگئے ہیں جنہیں محمد علی جناح روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جو آگے چل کر مسلم لیگ کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کریں گے جو یہی ہوا۔ میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی میں پنجاب کے دیگر ترقی پسند لوگ بھی شامل ہوگئے اور جبکہ یونینسٹ پارٹی کے انضمام کے بعد مسلم لیگ جاگیرداروں کی پارٹی بن گئی جو اب تک ہے۔ محمد علی جناح اصل میں ایک لبرل پاکستان چاہتے تھے اور اس پر سائیں جی ایم سید اور افتخار الدین جیسے لوگوں نے پھر سوال اٹھانا شروع کیا کہ یونینسٹ پارٹی کا انضمام جناح کی افتخار سے تضادات کو واضح کرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب ہماری راہیں جدا ہیں۔ 1946ءکے انتخابات کا منظر نامہ کچھ اس طرح تھا کہ مسلم لیگ بنگال میں اکثریتی پارٹی تھی جو تمام نشستوں پر کامیاب ہوگئی تھی۔ سندھ میں 51 فیصد نشستیں مسلم لیگ جیت گئی جبکہ 49 فیصد نشستیں کانگریس کی اتحادی جماعتیں جیت گئی تھیں۔ بلوچستان میں 1946ءکو انتخابات ہوئے ہی نہیں تھے۔ خیبرپختونخواہ جو اس وقت سرحد کے نام سے جانا جاتا تھا وہاں خدائے خدمتگار تحریک 33 میں سے 15 نشستیں لے سکی 9 نشستوں پر کانگریس اور باقی مسلم لیگ اور آزاد جماعتیں جیت گئی تھیں اور پنجاب میں سیاسی ماحول یکسر مختلف تھا۔ وہاں یونینسٹ پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری‘ ماضی کے سرحد اور آج کے خیبرپختونخواہ میں خدائے خدمتگار نے حکومت بنائی ڈاکٹر عبدالجبار خان (ڈاکٹر خان) جو باچا خان کے بڑے بھائی تھے وہ وزیراعلیٰ بنائے گئے لیکن 1947ءکو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو محمد علی جناح نے خیبرپختونخواہ کی کابینہ معطل کرکے حکومت ختم کردی اور ڈاکٹر خان کو اس کے عہدے سے ہٹایا گیا گورنر جنرل محمد علی جناح کی طرف سے اس حکومت کو ختم کرنا ایک غیر جمہوری عمل تھا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلا غیر جمہوری اقدام ثابت ہوا جو آگے چل کر دوسروں کے لئے حکومتیں ختم کرنا روایت بن گئی۔ اس طرح تضادات کی بنیادیں پڑنا شروع ہوگئیں وہ بنگال جس نے 1946ءمیں سو فیصد مسلم لیگ کو ووٹ دیکر کامیاب کرایا پھر اسی بنگال نے 1948ءکو گورنر جنرل محمد علی جناح کے اس اعلان پر اپنا ردعمل دکھاکر خلیج میں مزید دراڑ ڈال دی کہ آج سے اردو قومی اور سرکاری زبان ہے جسے بنگالیوں نے مسترد کردیا اور یہی وہ پہلا نکتہ تھا جس سے مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ محمد علی جناح کے مقابلے میں لیاقت علی خان جاگیرداروں کو پسند کرتے تھے وہ خود کرنال کے جاگیردار گھرانے سے تھے۔ کرنال جوکہ ہندوستانی پنجاب کا ایک علاقہ ہے اور جب 1947ءکو پاکستان بنا اور لیاقت علی خان کرنال سے پاکستان آئے تو اسے Claim پر گجرانوالہ میں جاگیر ملی۔ لیاقت علی خان کرنال کے نواب تھے جہاں ان کی جاگیریں تھیں اور پاکستان آکر بھی انہوں نے جاگیری سے محبت نہ چھوڑی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں ایک نئی سماج کی بنیاد رکھ دی جاتی‘ جاگیریں ختم کی جائیں نوابوں اور وڈیروں کو ختم کرکے انصاف اور برابری پر مبنی ایک نئے سماج کی بنیاد رکھ دیتے لیکن وہ خود اسی شوق کو نہ چھوڑ سکے جو اب تک پاکستانی سماج جاگیرداری کی گھتن میں گھٹ رہا ہے لیکن یہ سمجھنا بھی از حد ضروری ہے کہ ہر علاقے کا اپنا مزاج ہوتا ہے جاگیرداری نظام ہو یا قبائلی نظام‘ دونوں کی شکلیں مختلف ہیں لیکن ایک علاقے کا دوسرے علاقے سے مزاج کا یکسر مختلف ہونا بھی وہاں کے سیاسی نظام کو اثر میں رکھتا‘ چونکہ انسان جہاں بھی ہجرت کرکے جاتے وہ نہ صرف اپنے وجود کے ساتھ چلتا ہے بلکہ وہ ایک مزاج کو بھی آگے بڑھاتا ہے اور اگر چیزیں اس کے اختیار میں ہوں تو اسے مسلط بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ 1947ءسے 1963ءموجودہ پاکستان میں زمین کی خرید و فروخت پر لیاقت علی خان اور اس کی ٹیم نے مکمل پابندی لگادی۔ سندھ بلوچستان پنجاب اور سرحد میں تمام زرعی و غیر زرعی زمین کے انتقال پر پابندی تھی جبکہ Avegue زمینوں کی خرید و فروخت پر مقامی لوگوں کے لئے مکمل پابندی لگادی گئی زمین کے انتقال وٹرانسفر صرف اور صرف دعویٰ کلیم آرڈر والے کرسکتے تھے جبکہ مقامی لوگوں کو زمینوں کی بولی Acution کے وقت بھی بیٹھنے کی ممانعت تھی مطلب clain and Auction (دعویٰ و بولی) کا حق صرف ہندوستان سے نئے آنے والے مسلمانوں کو تھا اور یہ حق سب سے پہلے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے حاصل کیا تھا۔ محمد علی جناح نے ملیر کراچی میں یوسف بلوچ کی زمینیں حاصل کیں اور لیاقت علی خان نے گجرانوالہ میں حاصل کیں۔ 1958ءکو جب ون یونٹ بنا تو سٹیلمنٹ کے دفاتر کراچی سے لاہور منتقل ہوگئے جس نے مقامی لوگوں کے لئے مزید بحران پیدا کیا۔ 1963ءکو بولی اور دعویٰ بند کردیئے گئے لیکن یہ سلسلہ 1973ءتک چلتا رہا جسے ذوالفقار علی بھٹو کی دور میں مکمل طور پر یہ کہہ کر بند کردیا کہ اب بہت ہوچکا ہے۔ اب زمینوں کی Claim پر مزید آگے نہیں جایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کو زمینیں خرید و فروخت‘ انتقال اراضی و بولی میں حصہ لینے کی اجازت ملی‘ اصل میں دعویٰ Claim کی بنیاد یہ تھی کہ جو لوگ ہندوستان سے پاکستان آئے انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم جس خطے یا علاقے سے آرہے ہیں وہاں ہماری اتنی زمینیں‘ گھر‘ بنگلے تھے جس کا مداوا Compensate کرکے پاکستان میں اتنی زمینیں اور گھر دیئے گئے

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔