سیاسی بصیرت ومعروض
(آخری قسط)
تحریر:حنیف دلمراد
دی بلوچستان پوسٹ
لیکن اسی زمانے میں بنگال میں ترقی پسند اور کمیونسٹ عبدالحمید بھاشانی کی قیادت میں متحد رہے وہاں روس نواز نہ ہونے کے برابر رجحان کو بھاشانی پہلے سے سمجھتے تھے جبکہ مغربی پاکستان میںذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھ دی تو وہ بھی سیاست کے رجحانات کو سمجھ چکے تھے اور بھٹو نے سوشلزم کانعرہ لگاکر ان ترقی پسندوں کو اپنی طرف راغب کیا جو نیپ کے پلیٹ فارم پر پہلے سے اختلافات کاشکار ہوگئے تھے یہی وجہ تھی کہ بابائے سوشلزم شیخ رشید ،شیخ رفیق احمد خان ،معراج محمد خان ،مبشر حسن ،جے رحیم اور دیگر ماﺅ نواز سوشلسٹوں نے نیپ کوچھوڑ کر پیپلزپارٹی کی راہ لی جبکہ عبدالحمید بھاشانی ،معراج محمد خان ،میجر اسحاق اور افضل بنگش 1969ءکو نیپ سے الگ ہوئے تھے۔1969ءکو میجر اسحاق ،افضل بنگش ،شیر علی باچا ،غلام نبی کلو ،آدم خان ،فتح یاب علی خان اور دیگر نے پیپلز پارٹی میں جانے کی بجائے پاکستان مزدور کسان پارٹی کی بنیاد رکھ کر اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن نیپ کو خداحافظ کہا جبکہ پروفیسر مظفر اور امام علی نازش آخر تک نیپ کے ساتھ منسلک رہے۔روس نوازسوشلسٹ اور قوم پرست ولی خان کی قیادت میں نیپ میں رہے 1969ءیحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے پانچ صوبے بنائے جن میں انتخابات کا اعلان کیا۔1970 کو جب الیکشن ہوئے تو سندھ میں جماعت اسلامی ،جمعیت علماء پاکستان اور پیپلز پارٹی جیت گئیں بنگال میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ262 نشستوں میں سے261 نشستیں جیت کر اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ (اس وقت کا سرحد) میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اکثریت حاصل کرگئی۔خیبرپختونخواہ میں نیپ نے13اور جمعیت علماءاسلام نے3 نشستیں حاصل کیں جبکہ بلوچستان قومی اسمبلی کی چار نشستوں میں سے تین نیپ جیت گئی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی اکثریت رہی۔بنگال میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی اکثریت کے پیچھے عبدالحمید بھاشانی کی عوامی لیگ کا انتخابات کا بائیکاٹ تھا۔
اسی سال بنگال میں بارشوں کے باعث سیلاب آئے تھے،جس کا بھاشانی نے انتخابات روکنے کی تجویز دی تھی اور پھر بائیکاٹ کرکے حصہ نہ لیا جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے عبدالحمید بھاشانی پرالزام لگاکر یہ کہا تھا کہ بنگال میں بھاشانی نے بائیکاٹ کرکے ہمیں دھوکہ دیا اور مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کیلئے میدان 1968ءکو جب عوامی احتجانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوکر ایوب خان مستعفی ہوئے تواقتدار جنرل یحییٰ کو منتقل ہوا جنرل یحییٰ خان جس کا تعلق پشاور سے تھا اور قبیلہ قزلباش سے تعلق رکھتے تھے۔
یحییٰ خان نے تمام سیاسی رہنماﺅں کی گول میز کانفرنس منعقد کرکے تجاویز مانگیں ، اس سلسلے میں نیپ نے مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلاکر فیصلہ کیا کہ گول میز کانفرنس میں کون نمائندگی کرے۔تو کمیٹی نے ولی خان جو کہ نیپ کے صدر تھے انہیں نمائندہ بناکر گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے روانہ کیا، جنرل یحییٰ خان کو گول میز کانفرنس میں دو تجاویز ملیں پہلی یہ کہ مغربی پاکستان جسے ون یونٹ بنایا گیا ہے اسے ختم کرکے نئے صوبے بنائے جائیں اور دوسری تجویز یہ کہ جلداز جلد ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر پورے ملک میں انتخابات کرائے جائیں دستور ساز اسمبلی بناکر نیا آئین بنایاجائے، ولی خان چونکہ نیپ کے صدر اور بلوچوں کی بھی نمائندگی کررہے تھے انہوں نے یحییٰ خان کو تجویز دی کہ سندھ ،پنجاب اور سرحد کے صوبوں کو دوبارہ بحال کرکے بلوچوں کیلئے ایک نیا صوبہ بلوچستان بنایاجائے۔
اس سے قبل بلوچستان کی پاکستان میں ریاستوں کی حیثیت تھی جو ایک برٹش بلوچستان اور دوسرا قلات ریاست تھی،برٹش بلوچستان کا مرکز کوئٹہ جبکہ قلات ریاست قلات کامرکز قلات تھا ، برٹش بلوچستان میں اکثریت پشتون علاقوں اور بلوچوں کے دوایجنسیاں شامل تھیں جن میں ایک بگٹی ایجنسی اور دوسرا کوہلو ایجنسی تھا، برٹش بلوچستان کا سربراہ نواب کہلاتا تھا نواب جہانگیر جوگیزئی تھا اورقلات ریاست کے نواب یارمحمد خان تھے۔پورے بلوچستان کے سردار ان کے رکن ہوتے تھے ، اس طرح1969ءکو برٹش بلوچستان اور قلات ریاست کو ملاکر بلوچستان کے نام سے صوبہ وجود میںآیا اور یہ نیپ کا فیصلہ تھا جسے یحییٰ نے مسترد نہیں کیا، لیکن اس فیصلے کی عبدالصمد اچکزئی نے مخالفت کرکے نیپ سے الگ ہوکر پختونخواہ نیپ کے نام سے اپنی الگ جماعت بناکر ولی خان کے خلاف محاذ قائم کرکے نیپ کی مخالفت کرنے لگے اور جب1970ءمیں الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی کی حمایت کی اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر نیپ کیخلاف حزب اختلاف میں بیٹھ کر بلوچستان میں نیپ حکومت کی مخالفت کرتا رہا اور مرکز میں بھٹو کا ساتھ دیتا رہا۔
عبدالصمد اچکزئی تمام پشتون علاقوں کا سرحد کے ساتھ شامل کرنے کا حامی تھا اور بلوچوں کے ساتھ شامل ہونے کے خلاف تھا لیکن ولی خان کا موقف تھا کہ بلوچستان کی آبادی بہت کم ہے اگر پشتون علاقے اس میں شامل نہ کئے گئے تو بلوچستان کو صوبہ نہیں بنایاجائے گا اور سیاسی حوالے سے یہ فائدہ ہوگا کہ نیپ کے پاس تین صوبے سندھ ،سرحد اور بلوچستان ہونگے اور سینیٹ میں برابری کی نمائندگی ہوگی اور سینیٹ میں ہماری اکثریت ہوگی۔نیپ کی اکثریت پنجاب کو کمزور رکھے گا اور قوم پرست وترقی پسند پنجاب کو کبھی حاوی ہونے نہیں دینگے لیکن عبدالصمد اچکزئی اس بات کوسمجھنے کی بجائے رد عمل دکھاکر الگ ہوگئے۔1970ءکے انتخابات میں اکثریت کوحکومت سپرد کرنے کے معاملے میں اختلافات کے باعث1971ءکو بنگال میں بغاوت ہوئی جس کے باعث بنگلہ دیش الگ ملک بن گیا اور ادھر چار صوبوں پرمشتمل پاکستان رہ گیا، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں نیپ نے صوبائی حکومتیں بنالیں تھیں۔1974ءکوڈھائی سال بعد مرکز کے ساتھ اختلافات کے باعث یہ حکومتیں ختم ہوئیں اور پوری نیپ کی قیادت بغاوت اور سازش کیسوں کے نام پر حیدرآباد جیل میں بند کردی گئی لیکن اس دور کے سیاسی رہنماء اور کارکن بتاتے ہیں کہ شاہ ایران رضا شاہ کو بلوچستان میں ترقی پسند قوم پرست حکومت کو برداشت نہ کرسکا اور انہوں نے ہی بھٹو حکومت پر دباﺅ ڈال کرعراقی سفارتخانے میں بلوچستان کی آزادی کے سلسلے میں ہتھیار دکھا کر بلوچوں کی بلوچستان میں صوبائی حکومت ختم کراکے پوری کابینہ کو حیدرآباد جیل میں بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے بند کرا دیا اور حیدرآباد میں ٹریبونل کیس بنایا گیا،ان تمام کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔جج خود جیل جاکر مقدمہ چلاتے تھے، جیل میں بلوچستان کو صوبائی وزیرتعلیم میرگل خان قیصر ،وزیراعلیٰ بلوچستان عطاءاللہ مینگل ،خیربخش مری ،شیرمحمد مری ،رزاق بگٹی ،افراسیاب خٹک ،افضل خان ،صمد لاسی ،ولی خان ،حاجی غلام احمد بلور ،نسیم گردیزی اور انکے شوہر بھی مقید تھے۔جب بلوچستان حکومت ختم کردی گئی تو خیبرپختونخواہ میں نیپ کی صوبائی حکومت نے احتجاجاً استعفیٰ دیا، انہیں بھی حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کرکے حیدرآباد جیل بند کردیا گیا۔
بلوچستان کے1970ءکے دہائی کی سیاست کے ماہر اور امریکی دانشور سلیگ ہیرسین بھی ان خیالات کوسچ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا مغربی حصہ چونکہ ایران میں شامل ہے اس لئے ایران کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے مشرق میں پاکستانی بلوچستان میں قوم پرست خیالات کی کوئی حکومت قائم رہے جس کے اثرات مغربی بلوچستان پر پڑ سکتے ہیں۔یہی وجہ تھی1974ءکوبلوچستان میں بلوچوں کی حکومت ختم کرادی گئی۔1958ءمیں ایوب خان سے برسراقتدار آکر سیاسی سرگرمیوں پرپابندی لگائی تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے1974 ءکو بلوچوں کی حکومت ختم کرکے نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی اور بلوچستان میں آپریشن کردیا۔1978ءکو جب بھٹو حکومت ختم ہوگئی توحیدرآبادسازش کیس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس شرط پر کہ نیپ کے مقید رہنماء معافی نامہ لکھ کردیں بلوچ رہنماﺅں میں خیربخش مری سرفہرست تھے جنہوں نے نہ صرف ضیاء الحق سے ملنے سے انکار کیا بلکہ معافی نامہ لکھنے سے بھی منع کردیا۔ان کا موقف تھا کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی تو معافی نامہ لکھنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔1978ءکو تمام کے مقدمے ختم اور جیل سے رہائی ہوئی تو خیربخش مری ،شیر محمد مری ،رزاق بگٹی ،افراسیاب خٹک اور صمد لاسی افغانستان خودساختہ جلاوطنی اختیار گئے۔جبکہ عطاءاللہ مینگل نے برطانیہ کی راہ لی اور لندن میں مقیم رہے۔غوث بخش بزنجو نے ولی خان اور شیر بازمزاری کی بنائی ہوئی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) میں شمولیت کرلی لیکن کچھ عرصے بعد غوث بخش نے پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھ دی اور خود پارٹی کے سربراہ بنے یہ تضادات ہی تھے جنہوں نے بحرانی شکل اختیار کی تھی لیکن تضادات کی تجزیہ وتحلیل کی بجائے پارٹیوں پر پارٹیاں بنتی گئیں، تضادات جب سر اٹھاتے ہیں تو دبے ہوئے تمام اختلافات ابھرتے ہیں۔جام ساقی جوبائیں بازو کے بہت بڑے نام تھے وہ جمال نقوی جو جام ساقی کے دست راست تھے پھر انہوں نے ہی ساقی کو پیپلزپارٹی میں جانے کا مشورہ دے کر خود مارکسزم کے نظریات کے خلاف کالم لکھتے رہے اورکارل مارکس کو رد کرکے اس کی تاریخی ارتقاءکے فلسفے کو غلط کہنے لگے۔پروفیسرجمال نقوی کا تعلق کراچی یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے تھا جہاں وہ بحیثیت پروفیسر رہے جس کو جواب میں مشہور ڈرامہ اداکارہ ثانیہ سعید کے والد منصور سعید نے مارکسی نظریات کے دفاع میں مضامین لکھنا شروع کرکے پروفیسر جمال نقوی کے خیالات کوان کی ذہنی پسماندگی قراردیا۔
پروفیسر جمال نقوی کے تمام کالم روزنامہ ڈان انگریزی میں شائع ہوتے رہے، تضادات جب ابھرکر سامنے آتے ہیں توان کا ٹھیک تجزیہ نہ ہو تو عقل تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے اگر سیاسی جدوجہد سیاسی رویوں کوسائنسی بنیادوں پر تاریخی تناظر میں آگے بڑھایا جائے تو اس صورت میں تضادات کے ابھرنے پر ٹوٹ پھوٹ کی بجائے ان کو سمجھ کر ان کا نئی تجزیہ وتحلیل کرکے ایک نئے سماج کو نئی جہتوں پر کھڑی کرنے کی نئے سرے سے نئی جدوجہد کی جائے گی نہ کہ ردعمل پر ردعمل دکھا کرشکست وریخت کاایک نیاسلسلہ شروع کیاجائے گا، یہ صرف اور صرف اس صورت میں ممکن میں شامل ہوگا جب سیاسی رہنماء اورکارکن معروض وموضوع کاادراک رکھتے ہوں اور سیاسی بصیرت ہو، وگرنہ سیاست بحران دربحران سے گزرتے گزرتے معروض کا ہوتے ہوئے اور ادراک کے فقدان سے پرامید لوگ مایوسیوں کے صحراﺅں میں بے آب بھٹکتے ہی رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔