سچ کیا ہے اور سچ کو کیسے پرکھا جائے؟
(سندھی قوم کی صحیح رہنمائی کے تناظر میں )
تحریر : معشوق قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
سچ کیا ہے؟ یہ علم فلسفے کا سب سے بنیادی سوال رہتا آیا ہے اور فلسفہ ہی وہ علم ہے جس میں سے دنیا کے باقی سارے علوم کی شاخیں نکلی ہیں، سچ کیا ہے؟ اس موضوع پر سقراط سے لیکر صدیوں تک بحث چلتا رہا ہے، یہ وہ ہی سچ (حق) کا سلسلہ ہے جس کے لیئے سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑا، یسوع کو صلیب اور منصور کو سولی پر چڑھنا پڑا، گوردانو برونو کوآگ میں جل کر مرنا پڑا، قلندر کو آذربائیجان کے پہاڑوں سے سندھ کا سفر کرنا پڑ ا،اس سچ کی حاصلات کے لیئے ہی روئے زمین کے متعدد سچے لوگوں کو تاریخ کے صفحوں میں طرح طرح کی تکالیف اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔
اور سچ یا صحیح بات کو کیسے پرکھا (تصدیق کیا) جائے؟ اس پر بھی دنیا بھر کے محقیقین کے دور قدیم و یورپ کے نشاۃ ثانیہ سے لیکر اب تک سیکڑوں تجربات، نظریات و مشاہدات آچکے ہیں، ہر دور کے الگ الگ تخلیق کاروں کا خیال رہا ہے کہ ہر دور و معروضی حالات کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے، ان کی بات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ آج کا سچ کل کا جھوٹ بن سکتا ہے۔
ہر تھیسز کی اینٹی تھیسز آجاتی ہے اور بالآخر کسی’نسبتی سینتھیسز‘پر کام چلایا جاتا ہے۔ جس طرح ۸۰ع کی دہائی میں ایلون ٹافلر نے ’تیسری لہر، مستقبل کی جنگین ا ور فیوچر شاک‘ جیسی شاہکارکتابوں میں دیئے گئے منطق، دلائل اور فیکٹس و فگرزکی بنیاد پر کمیونزم و سوشلزم جیسے نظریات کو ہلا کرر کھ دیا۔اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سوویت روس جیسی آدھی دنیا کی جعرافی پر پھیلی ہوئی یونین ٹیریٹری بدلتے حالات، نوع انسانی کی مادی ضروریات و معاشی نظریات کا مقابلہ نہ کرسکے گی اور دھڑام سے آکر نیچے گر کر ٹکرے ٹکرے ہوجائے گی یا کمیونسٹ چائنہ اپنے ہی بانی ماوزئےتنگ کے نظریات کو پیٹھ دے کے آگے چل کر دنیا کا بڑا سرمایہ دار و معاشی اور قبضہ گیر سامراج بن کر ابھرے گا، بدلتے سچ کی یہ ہی خاصیت ہے۔جس پر اس صدی کا ایک مستقبل بین پروفیسر یوول نوح ہریری اپنے ’ہوموڈیوز، اور ’۲۱ لیسنز فار ۲۱ سینچری‘ میں لکھ رہا ہے کہ مستقبل میں انسانی ذہن کو مکمل کنٹرول میں رکھنے اور اپنے طریقے سے چلانے والے آلات آجائیں گے۔
کمپیوٹر ویب سایئٹس اور دنیا کے بینکنگ سسٹمزکی ’ہیکنگ‘ کی بات پرانی ہوجائے گی،مستقبل میں ایک زندہ انسان ’ہیک‘ ہوجائے گا۔۔۔! اگر یہ سچ ہے تو یہ سمجھنے میں حیرت نہیں ہوگی کہ یہ نوع انسانی کی تاریخ کا خوفناک ترین سچ ہوگا۔
جس طرح ’نائین سکس تھیوری‘ میں ایک ہی وقت مشرق و مغرب، دائیں اور بائیں کھڑے لوگوں کا سچ الگ الگ ہو جاتا ہے۔جس طرح ’ٹائیم اور اسپیڈ کی تھیوری‘ میں گذرتی ہوئی ایک تیز رفتار ٹرین میں بیٹھے ہوئے شخص اور پلیٹ فارم پر کھڑے اس ٹرین کے ٹائیم کو نوٹ کرنے والے شخص کے اپنے اپنے سچ دیکھنے اور ادراک کرنے کی اپنی اپنی الگ الگ نسبت ہوتی ہے
سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے، اس بات کو نوع انسانی صدیوں تک صحیح سمجھ کر مذہبی نظریات و عقائد میں اپنی ذہنی سوچ کو جکڑ رکھی چلی آئی، جب تک ’کوپرنکس‘ نے ریسرچ کر کے نہیں بتایا کہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے۔
مادی و تصوارتی فلسفیوں کے بیچ یہ ایک طویل بحث رہا ہے کہ سچ موضوعی ہے یا معروضی ہے؟ یا ہر سچ ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا ہے یا نسبتی (بحر حالت تبدیل شدہ) ہے؟ اور ایسا کونسا پیمانہ ہو سکتا ہے کہ جس کی بنیاد پر ہر دورکے سچ کو عقلی بنیادوں پر پرکھا و تسلیم کیا جائے؟
کرہ ارض پرنوع انسانی اپنی پوری تاریخ میں آج تک محض عقل و علم کا راستہ چننے کے ذریعے ہی بچتی آئی ہے جوسٹن گارڈن لکھتا ہے کہ
” صدیوں تک انسان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ زمین کسی سہارے کے اوپر ایک ہی سمت میں کھڑی ہے یا زمین پر نوع انسانی کو کسی طوفان نوح میں بچانے والا کوئی نوح کا بیڑا بھی تھا ۔! وہ کائنات کی کتنی خوفناک گھڑی بن سکتی ہے جب نوع انسانی کو پتا چلے کہ وہ ایک بہت بڑی اندھیری و وسیع کائنات میں تخلیق کارکے بغیربھٹک رہا ہے۔
(مذہبوں کے بنائے ہوئے تصورات کے مطابق کسی موضوعی خدا کے بغیر صرف اپنے بل پر ہی زندگی کی جدوجہد کر رہا ہے)
نوح کی کشتی اور کوئی نہیں بلکہ وہ ہی پرتھوی ہے جو نوع انسانی، حیاتات و نبادات کو اپنے بیڑے میں لیکر اکھٹ کائنات کے ایک وسیع اندھیرے سمندر کی گہرایوں میں تہل رہی ہے۔
یہ علم و عقل انسانی کی ہی وہ پوائنٹ تھی جہاں پر سقراط بھی آکر خاموش ہوجاتا ہے اور آخر میں صرف یہ ہی کہہ پاتا ہے کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا، جبکہ سائنس ریسرچ کر رہی ہے پرسائنس بھی اپنے کسی بھی نتیجے و نظریئے کو اپنا آخری سچ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی،یونان کے قدیم فلسفی افلاطون نے اس سے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ بھی سچ نہیں ہے، وہ محض آنکھوں کا ایک دھوکہ (الیوشن) ہے۔۔۔
ذہن انسانی دنیا کے تمام مذاہب، خدائی تصورات،نظریات، تجربات و مشاہدات کا تخلیق کار رہا ہے،کرہ ارض کی ارتقا میں گرچہ پانچ ارب سال لگے ہیں یا نوع انسانی کی ارتقا کے دس کروڑ سال ! اس ساری مدت کا تین تہائی حصہ تو نوع انسانی کو صرف سمجھنے سمجھانے میں گذر گیا ہے! مادرسری، پدرسری،پاپائیت، شہنشاہی، ڈکٹیرشپ، فاشزم، لبرلزم، کیپٹلزم، سوشلزم جمہوریت و نیشنلزم کے نظاموں و نظریات ہردورمیں اپنے اپنے سچ کی تشریح و توکیل کرتے آئے ہیں، جس طرح آج بھی ہر سیاسی و مذہبی پارٹیز کے لیڈر و کارکن بڑے فخر سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ”میری ہی بات اصول ہے اور باقی سب کی بات ’غلام رسول‘ ہے۔۔۔! جب ان سے کہا جائے کہ اپنی بات کو ثابت کرو کہ کیسے سچ ہے؟ یا آپ نے جو بھی فرمایا اس کو اب ’اسٹیٹسٹیکل ڈیٹا‘ (فیکٹس و فگرس) میں کنورڈ کرو! جو آپ نے کہا، اس کو عمل میں لانے کا کوئی عقلی طریقہ بتاؤ کہ یہ کام کیسے ہوگا؟
تو سکتے میں آجاتے ہیں اور جذباتی ہوکر کہتے ہیں کہ تمارے پاس میری بات کو سچ ماننے کے سواء اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے، اگر نہیں مانتے تو یقیناََ تم ہمارے خلاف ہو! اور بہت سے نیم پاگل، جنونی اور مختلف نظریات کے انتہا پسند تو کوئی بھی عقلی سوال کرنے پر واجب القتل بھی قرار دے دیتے ہیں۔
اپنی اپنی ڈیزائن کا سچ بتانے اور منوانے کا ایسہ ہی عجیب و خوفناک لاجک ہمیں یہاں سندھ کی تمام سیاسی۔ نظریاتی و مذہبی جماعتوں میں بڑے جوش وجذبے سے نظر آتا ہے
سندھ میں سوائے عملی انقلابی یا کسی بھی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے والوں کے باقی سارے شعبوں کے ماہریں لاکھوں کی تعداد میں ہرشہر میں ہونے والی کانفرنسوں میں اپنے اپنے نظریات و آلات کے ساتھ دستیاب ملتے ہیں اور ہر کسی کے پاس سندھ کے تمام مسائل کا اپنا اپنا حل ہے،بعض حضرات تو ہر شعبے کا ماہر ہونے کی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں اور انکے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔
جس طرح ’ٹیٹیہر‘ پنچھی رات کو اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف کرکے سوچتا ہے کہ وہ آسمان کو اپنی ٹانگوں پر اٹھائے کھڑا ہے گر وہ نیچے سے اپنی ٹانگیں نکال دیے تو آسمان آکر نیچے گرے گا، سندھ کا ہر لیڈر اس طرح ہی سندھ کواپنی ٹانگوں پر اٹھائے کھڑا ہے۔
پارٹیوں اور لیڈروں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، شاعروں اور ادیبوں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے پھر بھی سندھ وطن پر نوآبادیاتی حملے و قبضے کا کوئی بھی عملی حل نکالنے سے قاصر ہیں ۔
جبکہ ہر جاہل اپنی اپنی جہالت کے جذبے سے سرشار، پرعزم و پراعتماد نظر آتا ہے اوراپنی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوا ہے
سیاست و مزاحمتی جدوجہد سمیت ہر میدان میں ناکام و فرسٹیشن کے شکار رہنما و ماضی کے بڑے بڑے نام نہاد مزاحمتی کمانڈران ، یا تو اپنے نظریات سے ہاتھ اٹھاچکے ہیں یا پھر قوم کو گالی دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ، یہ قوم ہی ایسی ہے۔
حالانکہ دنیا کے اندرساری قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں، دنیا کے کسی بھی خطے میں وطن کی آزادی کے لیئے لڑی جانے والی قومی جدوجہد کے دوراں کسی بھی لیڈر کو کوئی بھی ایسی قوم نہیں ملی جو انقلاب و آزادی کی جنگ و جدوجہد کے لیئے پہلے سے ہی ذہنی، نظریاتی و شعوری طور پر تیار ہو! ماؤزئےتنگ کو چین کی آفیمی قوم ملی،کیبرال کو گنی بساؤ کی صدیو ں سے پسی ہوئی پسماندہ قوم ملی ، یہ تو ان لیڈروں کی اپنی نااہلی ہوتی ہے جو قوموں کے لبریٹرز بننے کے بجائے ان کو بندگلیوں میں آکر پھنسا کر یا تو باہر بھاگ جاتے ہیں یا پھر اپنی نااہلی، نکمے پن و ذاتی عیاش و مخصو ص مفادات کے حرص و لالچ میں مہو ہوکر قوموں کے کاز کا سودہ کرتے ہیں۔
دنیا کی انقلابی تاریخ کے کتاب لکھتے ہیں کہ ناکام ہیں وہ لیڈر ہی جو اپنی قوم کو صحیح راستہ دکھانے کے بجائے انہیں بند گلی میں آکر چھوڑ دیں اور وہ سپہ سالار ہی نہیں جو اپنے سارے سپاہ و لشکر کو مروادیں، جو اپنے لوگوں کی نفسیات، دشمن کی طاقت و جنگ کے محرکات سے واقف ہی نہ ہواور اپنی غلط حکمت عملیوں اور کم عقلی کی وجہ سے سب ستیاناس کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو کامیاب لیڈر یا کمانڈر بنایا بیٹھا ہوا ہو ، اصل زمینی حقائق و سچ کیا ہے اور ان کے بنا پر کیسے کام کیا جا سکتا ہے؟ ان چیزوں سے اپنے اپنے سچ بنائے بیٹھے ہوئے علم وعقل کے اکابروں کو ئی غرض نہیں ہے، پنجاب میں ’دلے شاہ‘نامی ایک درگاہ ہے،جہاں پر لوگ اپنے اولاد کے لیئے منت ماننے آتے ہیں کہ اگر اولاد ہوئی تو وہ پہلی اولاد کودلے شاہ کی درگاہ پر چھوڑیں گے۔ ان معصوم بچوں کو جب دلے شاہ کی درگاہ پر چھوڑا جاتا ہے تو دلے شاہ کی درگاہ کی ایک روایت ہے کہ وہاں بچوں کو بچپن سے ہی ایک ’لوہی ٹوپی‘ پہنا دی جاتی ہے۔۔۔! اس طرح جیسے ہی وہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کا دماغ اور سر اوپر کی طرف صرف ایک ہی کی رخ میں ارتقا کرتا جا رہا ہوتا ہے اور بڑا ہوکر وہ بچہ سمجھتا ہے کہ ارتقا کا صحیح رخ صرف یہ ہی ہے، انہیں دلے شاہ کے چوہے کرکے بلایا جاتا ہے
تو اس طرح سندھ کی سیاست سمیت ہر شعبے میں اس ’دلے شاہ‘ کے چوہوں جیسی سوچ والوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو سب کے سب سمجھتے ہیں کہ’صحیح سچ، سچا راستہ اور طریقہ صرف وہ ہی ہے، جس سوچ کے رخ میں ان کی کھوپڑی شریف نے ارتقا کی ہے۔
سندھ کو آزاد کرانے یا سندھ کے مسائل کو ایڈریس کرنے کے دو الگ الگ رویئے ہو سکتے ہیں ۔
ایک رویہ جذباتی اور ’بھولو پہلوان والا‘ ہے جس سے اگر آ پ پوچھیں کہ پہاڑ کو کیسے توڑا جائے؟ تو ’بھولو پہلوان‘ فوراََ بولے گا کہ بس یوں جاکے پہاڑ سے ٹکراتا ہوں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔
دوسرا رویہ عقلی اور عملی ہے کہ جب آپ یہ ہی سوال کسی انجینئر سے پوچھیں گے تو انجنیئرآپ کو پہاڑ کی جسامت، طاقت، مختلف رخ، ہٹ کرنے کی صحیح جگہ، استمعال میں آنے والے آلات ومواد، لگنے والا پورا وقت،قیمت و صلاحیت کی پوری کلکیولیشن بتائے گا۔
یہ ہر چیزکے صحیح سچ جاننے کے دو الگ الگ زاوئیے ہیں۔اب وہ ہم پر ہے کہ ہم بھولو پہلوان والی بات پر یقین کریں یا اسٹیٹسٹیکل ڈیٹا اور علم، عقل و تجربات کے بنیاد پر صحیح کلیولیشن پر یقین کریں۔
ہمیں کسی کی بھی ’لمبی چوڑی اور اموشنل کہانی‘ پر مبنی دعواؤں پر یقین کرنے کے بجاء ہر ایک چیز کو علمی، عقلی اور اپنے ادراک کے بنا پر پرکھنااور سمجھنا ہوگا۔کسی بھی صحیح یا غلط بات کا ادراک کیا ہے او ر کیسے آتا ہے؟
اس موضوع پر اکثر سینیئر دوستوں سے جب بات چیت ہوتی ہے تو یہ ہی سوال سامنے آتا ہے کہ ”ہم لوگوں یا لیڈروں پر اعتبار کیسے کریں؟ جبکہ سندھ کے نام پر بہت بڑے بڑے لیڈر پہلے ہی سندھ اور سندھی قوم سے بڑی بڑی ویساہ گھاتیاں کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔!کیسے پتا چلے کہ فلاں سچا ہے یا فلاں آگے چل کر وطن، قوم، مقصد اور ساتھیو ں کے ساتھ دھوکہ(چیٹنگ) نہیں کرے گا یا اپنے آدرشوں سے مکر نہیں جائے گا؟ کیا ایسہ کوئی فارمولا ہے؟
اس بحث کا نتیجہ کچھ اس طرح سے اخذ ہوتا ہے کہ ’یہ ہر آدمی کے ساتھ چلتے چلتے مشاہدات کے بنا پر ادراک ہوجاتا ہے کہ عملی زندگی اور جدوجہد کے عملی میدان پر کون کیسے کام کرتا ہے، اس کا کردار کیسا ہے، ہم انہیں عمل کے میدان پر کی جانے والی جدوجہد کے نتیجوں سے ہی یہ ادراک کر سکتے ہیں کہ کون کیا ہے اور کس پر اعتبار کیا جائے؟“
کیا ہمارے اعتبار و اعتماد کا پئمانہ ذاتی مفادات کی آنکھ سے پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہے یا اپنے وطن، قوم و تنظیم کے مفادات کے بناپر ہے؟اس بات کا تعین اس تنظیم کے ادارے کریں گے؟ یا کوئی فرد واحد یامخصوص گروہ کریں گے؟ ان ہی عقلی بنیادوں پر کسی بھی صورتحال کا صحیح ادراک کرنے کے لیئے اس صورتحال اور بات کے سارے رخوں کاصحیح جائزہ و ادراک اپنے تجربات، مشاہدات کے ذریعے ہوجاتا ہے۔ یہ تھوڑا میٹھ میٹیکل میتھڈ ہوجائے گاپر اس ہی طریقے سے ہم صحیح سچ کا ادراک کر سکتے ہیں کہ کسی بھی بات میں محظ جذبات، حادثات و غلط سیاسی سماجی تجربات کے ہی محرکات کارفرما ہیں یا اس بات میں کوئی علمی، عقلی اور سائنسی بنیادوں پر رہنمائی و رہبری کا راستہ بھی دکھایا گیا ہے؟ اور اس نظرئے یا جدوجہد کی کوئی ایکیوریٹ فیکٹس و فگرز (اسٹیٹسٹیکل ڈیٹا) کی بلکل صاف او ر واضح تصویر بھی دی گئی ہے؟
اسی ہی طرح آئن اسٹائن کی اسپیشل رلیٹوٹی، نیوٹن کی گریوٹی اور اسٹیفن ہاکنگ کی ٹائیم اور اسپیس کی تھیوری ہے۔جن سب نے سائنسی نتیجہ ایک ہی نکالا ہے کہ کسی بھی چیزکے چوگرد محرکات کونسے ہیں؟نظریات وصحیح سچ کی نسبت کو ہم صرف ان اسباب ومحرکات کے بناپرہی پرکھ سکتے ہیں۔یہ ہی طریقہ ہے جس سے ہم سارے نظریات کو عملی جدوجہد و موجودہ حالات میں عملی طور پر کارگر ہونے یا نہ ہونے، قابل ِعمل ہونے یا نہ ہونے کے عقلی ادراک کے بنیادپر ہی سوچ سمجھ کر پرکھ سکتے ہیں۔ہر سچ کی سب سے بڑی لیبارٹری اس وقت کے معروضی حالات و محرکات ہی ہوتے ہیں۔سچ کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تواس کی میتھمیٹیکل اکیوئیشن کچھ اس طرح اپنی کمپوزیشن بنائے گی کہ
’سچ انسانی محنت ومشقت،تجربات و مشاہدات،علم و عقل کے ذریعے حاصل ہونے والے ’ادراک‘ کی سب سے اعلیٰ شکل ہے اور صحیح سچ صرف نسبتی ہوتا ہے اور وہ محظ تحقیق درتحقیق کے ذریعے ہی سمجھا، پرکھا اور عمل میں لایا جاسکتا ہے اور جو سچ اپنے آپ کو عمل میں لانے کی اہلیت، قابلیت وصلاحیت ہی نہیں رکھتا اس کو سچ نہیں ’مفروضہ(’ہائپوتھیسز) کہاجاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔