سندھ میں طلباء یونین بل کی منظوری اور خدشات
تحریر: گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ضیا الحق کے زمانے میں ملک میں طلبا یونین پہ پابند لگائی گئی اور تاحال اس پابندی کو ہٹانے کے لیئے کسی بھی ملک گیر جمہوری سیاسی جماعت نے عملی کوشش نہیں کی حالانکہ آج کے ہر سیاستدان یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے خود کو انہی طلبا یونین کا کیڈر کہتے ہیں۔
حال ہی میں طلبا یونین کی بحالی میں سندھ پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ متحرک نظر آرہا ہے اور گذشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں طلبا یونین کی بحالی کا بل بھی منظور کرایا۔ جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں تھی اگر وہ چاہتے تو وہ ملک گیر تمام صوبوں میں طلبا یونین کی بحالی کا بل نا صرف منظور کرواتے بلکہ الیکشن بھی کرواتے بہرحال وہ پہلے کیوں نہیں کرسکا، اُنکی کیا مجبوریاں تھیں یہ وہ خود بہتر جانتے ہیں۔
گذشتہ دنوں اسی طلبا یونین بل جو سندھ اسمبلی سے حال ہی میں منظور ہوئی اس پہ بحث کرنے کے لیے کراچی پریس کلب میں ایک پروگرام تھا تو وہاں اس بل کی کاپی ملی، اس پہ کافی ایکٹیوسٹس نے سیر حاصل بحث بھی کی مگر جہاں تک اس بل کے حوالے سے میرا نقطہ نظر ہے، اس میں وہ چیز یا تو پہلے نہیں تھے یا اُن کو ہذف کئے گئے اور برائے نام ایک بل پاس کرایا تاکہ پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جائے کہ انکے دور میں یہ کام ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیونکہ جہاں تک ہم نے طلبا یونین اور کیمپس پالیٹکس کے بارے میں سُنا اور پڑھا ہے، جو حال ہی میں سندھ اسمبلی میں پاس ہوا ہے، وہ سب اسکے برعکس ہے، اس یونین سے ماتحت طلبا پیدا ہوسکتا ہے تاکہ کیمپس کے اندر انتظامیہ کی خوشنودی حاصل کر کے وقتی طور پر برائے نام یونیورسٹی کے ( سنڈیکیٹ یا سینیٹ) جیسی انتظامی باڈی کا حصہ بن سکتا ہے، مگر اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اس پلیٹ فارم سے ماضی کی طرح گراس روٹ سے روشن خیال ترقی پسند جمہوری سیاسی کارکن پیدا ہوں جو معاشرے میں انتہا پسندی، جہالت اور تنگ نظری کی سیاست کو کاؤنٹر کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کریں کیونکہ اس پورے بل میں کسی بھی جگہ آپکو سیاست کا لفظ نظر نہیں آتا بلکہ جگہ جگہ یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ یونین کے ممبران یونیورسٹی کے قوائد و ضوابط کے پابند ہوں۔
اسکا سیدھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ پہ منحصر ہے کہ وہ اس حوالے سے طلبا کو مزید پابند کرنے میں کیا پالیسی مرتب کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طلبا یونین کے اصل روح سے بلکل مختلف ہے، مذکورہ جماعت صوبے یا ملک میں وقتی سیاسی اسکورنگ کی خاطر عجلت میں وقتی اور پاپولرزم کے نعروں سے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے۔
شروع میں تو سمجھتے تھے کہ اگر پیپلز پارٹی نے اب محسوس کیا ہے کہ کیمپس پالیٹکس کمزور ہونے کی وجہ سے ہماری کیڈر سازی کا عمل رُک گیا تو “ دیر عائد درست عائد “ مگر اب سمجھ یہ آرہا ہے کہ اب وہ نہیں چاہتی کہ گراس روٹ سے کوئی آکر اس سیاسی عمل سے آگے بڑھے وہ ابھی بھی تعبیدار پیدا کرنے کی انتظامی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ شاید میرا نقطہ نظر غلط ہو مگر میرا یہی رائےہے کہ یہ وہ طلبا یونین نہیں ہوگا کہ جس سے ہزاروں فکری نظریاتی روشن خیال ترقی پسند سیاسی کامریڈ اُنکے سرکلوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ بلکہ مجھے تو خدشہ ہے کہ جو سیاسی طلبا تنظمیں آج اپنے بساط میں شاندار انداز میں کام کر رہے ہیں، وہ کمزور نہ ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔