دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 25 – جارحانہ جنگ کی حکمت ِعملی
عام طور پر جنگ کی بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ دشمن ملک کو منتشر کرکے تباہ کرنے کی بجائے ایک سالم (زندہ) شکل میں فتح کیا جائے۔ دشمن کی تمام فوج کو جنگی قیدی بنانا‘ انہیں قتل کرنے سے بہتر ہے۔ (چینی زبان میں رجمنٹ‘ کمپنی اور اسکواڈ کو بالترتیب لو‘ زو اور وو کہا جاتا ہے‘ قدیم چین میں ’لو‘ میں پانچ سو‘ زو میں ایک سو اور وو میں پانچ فوجی سپاہی ہوتے ہیں) ایک سو جنگوں میں ایک سو فتوحات حاصل کرنا اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن دشمن سے جنگ کیے بناء بات چیت کے ذریعے اس سے شکست تسلیم کروانا عقل مندی ہے۔
جنگ میں یہ بات دشمن کے جوڑے ہوئے قلعوں اور حکمت عملیوں پر حملہ کرنا سمجھا جاتا ہے‘ اس کے بعد بہترین بات سفارت کاری کے ذریعے دشمن کے دیگر بادشاہوں کے ساتھ ہونے والے اتحاد کو ڈانواں ڈول کرنا ہے‘ تیسرے نمبر پر اچھی بات دشمن پر حملہ کرنا سمجھا جاتا ہے‘ سب سے خراب جنگی حکمت عملی شہروں پر حملہ کرنا ہے‘ شہروں پر صرف تبھی حملہ کیا جائے جب اس کا اور کوئی متبادل نہ ہو کیونکہ ایسا کرنے کیلئے بڑی ڈھالیں اور فوج کیلئے بڑی گاڑیاں بنوانی پڑیں گی‘ اس کے علاوہ مزید فوجی سامان کی ضرورت پڑے گی جس کے حصول کیلئے تین ماہ درکار ہوں گے‘ فوجیوں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس کے بعد دشمن کے قلعے کے چاروں طرف کیڑوں مکوڑوں کی طرح گھیراؤ کرلیں اور پھر نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنی فوج کا مکمل تیسرا حصہ کھو بیٹھے گا اور شہر بھی فتح نہیں ہوگا‘ اس لئے شہروں پر حملہ کرنا وقت کازیاں اور دِقت طلب کام ہے۔
جنگوں کے ماہر کمانڈر دشمن فوج کو بناء جنگ کئے فقط بات چیت کے ذریعے شکست تسلیم کرواتے ہیں‘ اس کے علاوہ وہ دشمن فریق کے شہروں پر بغیر خون ریزی کے قبضہ کرلیتے ہیں اور طویل جنگ کے بغیر ملک ان کی رعیت میں شامل ہوجاتا ہے‘ ان کی اختیار کردہ حکمت عملی ایسی ہوتی ہے کہ بناء کسی تباہی کے سارا ملک سالم شکل میں فتح کرلیتے ہیں اس طرح ان کی فوج کا بھی زیاں نہیں ہوتا ہے اور فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے‘ اسی طرح پیش قدمی کی حکمت عملی بھی ایک فن ہے۔
اگر ایسی بات چیت کا میاب نہیں ہوتی تو پھر فوج کو استعمال میں لانے کا فن یہ ہے کہ جب آپ کی فوج دشمن لشکر سے دس گنا زیادہ تو اس پر حملہ کریں‘ اگر آپ دشمن سے دگنا ہیں تو آپ دشمن کی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر مجبور کریں اور اگر آپ کے دشمن کی فوج آپ کے برابر ہے تو آپ ایک بہترین جنگی حکمت عملی اپنائیں اگر آپ دشمن سے تعداد میں کم ہیں تو پھر عقل مندی کے ساتھ جنگ سے دستبردار ہوجائیں لیکن اگر آپ تمام پہلوؤں سے کمزور ہیں تو اسے دھوکہ دے کر بھاگ جائیں کیونکہ اگر ایک طاقتور فوج بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کرے گی تو تھوڑا لشکر اس کی بھوکی تلوار کا لقمہ جائے گا۔
فوجی جرنیل ملک کے حکمران کا ساتھی یا مدد گار ہوتا ہے اگر وہ حکمرانوں کے ساتھ ہر ملکی مسئلے پر مخلص ہے تو ملک یقیناً طاقتور ہوگا بصورت دیگر ملک یقیناً کمزور ہوگا‘ ذیل میں ایسی تین باتیں بیان کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے نااہل جرنیل اپنی سپاہ کو تباہ کردیتا ہے۔
1۔جب اسے پتہ نہیں کہ فوج پیش قدمی کیوں نہیں کررہی اور اسے پیش قدمی کا حکم دیتا ہے یا جب اسے یہ پتہ نہیں کہ فوج آرام کیوں نہیں کررہی تو اسے آرام کرنے کا حکم دے رہا ہے‘ اسے فوج کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا کہتے ہیں۔
2۔جب حکمران فوجی معاملات سے بے خبر ہوتا ہے اور خوامخواہ اس کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے تو اس کے باعث عسکری عملدار حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔
3۔ جب حکمران کو فوجی احکامات کا علم نہیں ہوتا ہے اور وہ جنگ کرنے کے احکامات صادر کرتا ہے تو ایسا کرنے سے فوجی عملداروں کے دلوں میں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔
اگر فوج الجھن اور وہم میں مبتلا ہوگی تو ہمسایہ حکمران اس گنجلک صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ الجھی ہوئی فوج دشمن کی فتح کا سبب بنتی ہے۔
اسی طرح پانچ نقاط کے ذریعے اس فتح کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔
(i) جس جرنیل کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسے کب لڑنا اور کب نہیں لڑنا چاہئے تو وہ جرنیل جنگ میں ضرور فتح یاب ہوگا۔
(ii) جس جرنیل کو پتہ ہے کہ دشمن فوج کی قوت کو مدنظر رکھ کر کس طرح لڑنا چاہئے‘ وہ ضرور جیت سے ہمکنار ہوگا۔
(iii) جس جرنیل کی سپاہ کا ہر یونٹ اپنا اپنے مقصد کے حصول کیلئے متحد و مخلص ہے وہ بھی ضرور جنگ جیتے گا۔
(iv) جس حکمران کے فوجی جرنیل جنگ میں ماہر ہیں اور ایسے دشمن پر اچانک حملہ آور ہونے کے لئے گھات میں ہیں جو جنگ کیلئے تیارہی نہیں ہے‘ وہ ضرور جنگ میں کامیاب ہوگا۔
(v) جس حکمران کے فوجی جرنیل جنگ کے ماہر ہیں اور وہ جرنیلوں کے عسکری معاملات میں دست اندازی نہیں کررہا‘ وہ حکمران ضرور فتح حاصل کرے گا۔
اوپر بیان کئے گئے پانچ نقاط ایسے ہیں جن کی مدد سے فتح کے طریقے کو جانا جاسکتا ہے‘ اس لئے میرا یہ کہنا ہے کہ پہلے دشمن کو جائز ہ لیں‘ تجزیہ کریں‘ پھر آپ اپنی قوت کا جائزہ لیں۔
ایسا کرنے سے آپ بناء کسی شکست کے ایک سوجنگیں لڑسکتے ہیں۔ جب آپ دشمن سے متعلق کچھ نہیں جانتے لیکن آپ کو اپنے طاقت اور قوت کا اندازہ ہے تو جنگ جیتنے اور ہارنے کا تناسب برابر ہوگا لیکن اگر آپ دشمن سے متعلق کچھ نہیں جانتے اور اپنی قوت کا بھی کچھ اندازہ نہیں تو پھر ہر جنگ میں آپ کو شکست کا سامنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔