ڈیموکریسی انڈیکس 2019ء میں بھارت کا مجموعی اسکور 6.90 رہا جبکہ سن 2018 میں 7.23 تھا۔ ڈیموکریٹکس انڈیکس کے آغاز سے بھارت کا یہ اب تک کا بدترین سکور ہے۔ اس فہرست میں 9.87 پوائنٹ کے ساتھ ناروے اول نمبر پر ہے۔
سن 2006 میں برطانوی جریدے ‘دی اکنومسٹ’ گروپ کے تجزیاتی و تحقیقاتی ڈویژن ‘اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ’ کی جانب سے ہر سال عالمی سطح پر جمہوری اقدار اور اس کی حیثیت کی درجہ بندی کے مقصد سے ‘ڈیموکریسی انڈیکس’ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت صفر سے دس تک کے پیمانے پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔
ڈیموکریسی انڈیکس کے بارویں ایڈیشن میں بھارتی جمہوریت کی حیثیت میں گراوٹ کی بنیادی وجہ شہریوں کی آزادی میں درج کی گئی کمی بتائی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ”بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر سے متعلق دو اہم آئینی دفعات ختم کرتے ہوئے اس کا خصوصی مقام ختم کر دیا اور ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ اس فیصلے سے قبل حکومت نے وہاں بڑی تعداد میں فوج کو تعینات کیا، بہت سی پابندیاں اور قدغنیں عائد کیں، مقامی سیاسی رہنماؤں کو نظربند کر دیا گيا اور پورے خطے میں انٹرنیٹ پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔
اس رپورٹ میں متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کا بھی خصوصی ذکر کیا گيا ہے۔ ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ کے مطابق ”ریاست آسام میں این آر سی کے نفاذ کے بعد جن انیس لاکھ افراد کو حتمی فہرست سے باہر رکھا گيا ہے اس میں بڑی تعداد میں مسلمان شامل ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی میں میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
ریاست بنگال کی حکمران جماعت ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان ڈریک او برائن کا کہنا ہے کہ بھارت کی جمہوری حیثیت میں یہ کمی حکومت کی پالیسیوں کے سبب ہوئی ہے