بلوچستان کتاب کاروان اور بساک – گُل حسن بلوچ

249

بلوچستان کتاب کاروان اور بساک

گُل حسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر دیکھا جائے تو دنیا کے اندر کتاب نے شعور پیدا کیا ہے، آج اگر یورپ نے ترقی کی ہے تو اس کا راز یہی کتاب ہے، جب یورپ کے اندر شعور پر قدغن لگا تو روشن خیالی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے بہت ساری تبدیلیاں لائیں۔

ان سارے چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بلوچستان کو دیکھتے ہیں، یہاں بھی اسی طرح شعور پر قدغن ہے، یہاں کتاب پڑھنا اور ہاتھ میں رکھنا ایک جرم بن چکا ہے، جب آپ کتاب کی بات کرتے ہیں تو طلباء کے اندر ایک خوف پیدا ہوتا ہے، خدا نہ کرے یہ کتاب ہمارے لیئے مصیبت نہ بن جائے، لیکن اس کے ماحول میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جہد ناقابل فراموش ہے کہ اس طرح کے ماحول میں بلوچستان کے کونے کونے میں کتابی میلہ لگانا بہت بڑا رسک تھا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا مقصد صرف اور صرف بلوچ طلباء و طالبات کے اندر علمی, سیاسی و ادبی شعور کو پروان چڑھانا ہے تاکہ وہ آگے جاکر معاشرے کے اندر ایک اچھا کردار ادا کرسکیں۔ ان سارے خوبیوں کے علاوہ بہت سارے کمزوریاں بھی موجود ہیں، ان کو نکالنا ضروری ہے، خیر باتیں بہت ہیں لیکن ہمارا موضوع ہے “بلوچستان کتاب کاروان اور بساک ( BSAC) ہم دیکھتے ہیں 2017 سے بساک کا کتاب کاروان چلتا آرہا ہے، تربت جیسا جگہ وہاں کتاب کے نام لینا جرم تھا حتیٰ کہ لائبریریوں میں وہ کتاب رکھنا جرم تھا جو انسان کو سوچنے میں مجبور کرتا ہے، لیکن 2019 میں بساک نے وہاں تک کتب میلہ لگایا گیا ہے اور باقی کچھ علاقوں میں بھی کتاب کاروان کا رسائی ہوچکی ہے اور ہم کو یہ امید ہے کہ یہ کاروان اپنے منزل تک رواں دواں رہے گا۔

اس ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ خود کتنے کتاب پڑھتے ہیں، اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بلوچ طلباء کے اندر کتاب کلچر پیدا کرینگے اس کتاب کے توسط سے وہ حقیقی طلباء بنیں گے، کیا وہ خود کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں؟ اس کے ممبران سے لیکر زمہ داران ایک مہینے میں کتنے کتاب پڑھتے ہیں ، کیا جو ممبر فارغ ہو چکے ہیں، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اپنے ان دوستوں کے ذہن میں اتنا شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ وہ معاشرے کے اندر ایک اچھا کردار ادا کرسکیں؟

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی خود کو ایک متحرک تنظیم بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے کونے کونے تک بلوچ طلباء کے دعوئ دار سمجھتا ہے، کیا اس کے لیڈروں کے اندر اتنا شعور ہے کہ بلوچ طلباء کی نمائدگی کرسکیں، وہ اپنے آپ کو بلوچستان کے حقیقی وارث سمجھتے ہیں، کیا اس کے لیڈراں اپنے ممبروں کے اندر بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سےکوئی آگاہی پیدا کی ہے، کیا وہ خود بلوچستان کی تاریخ کو پڑھ چکے ہیں؟ دنیا کے تاریخ سے پہلے اپنی تاریخ جاننا بہت ضروری ہے۔ وہ اپنے آپ کو کتاب دوست سمجھتے ہیں، وہ ایک مہینے میں کتنے کتاب پڑھتے ہیں، جو ایک پالیسی کے بنیاد انہوں نے کتابی شعور کو پروان چڑھانے کیلئے اپنے سارے ممبروں کو تاکید کیا گیا تھا کہ ہر ممبر کو ایک مہینے میں ایک کتاب پڑھنا ہے اور اس کے خلاصہ بھی لکھ کر مرکز تک فارورڈ کرنا ہے چلو یہ اچھا کام ہے طلباء کیلئے جو کتاب کا کلچر پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، لیکن کیا زمہ داراں خود کتاب پڑھ رہے ہیں ان کے خلاصہ لکھ رہے ہیں؟

آج تک میں نے نہیں دیکھا ہے کسی زمہ دار نے ایک کتاب کا خلاصہ لکھا ہے، انہوں نے ایک لائبریری شال زون کے اندر بنایا ہے، وہاں سب سے پہلے بلوچستان کے حوالے سے سارے تاریخی کتاب ہونے چاہئیں تھے، اس کے بعد باقی کتابیں لیکن بلوچستان کے حوالے سے 3 , 4 کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب موجود نہیں ہے ۔

آخر میں دوستوں سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگ کتاب کلچر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو خود بھی کتاب پڑھیں تاکہ کوئی اور طالب بھی ماحول سے فائدہ اٹھا سکے، باقی عام طلباء سے زیادہ ایک تنظیم کے رہنما کو زیادہ پڑھنا اور علم ہونا چاہیئے، بدقسمتی سے ہمارے بساک کے دوستوں سے زیادہ باقی طلباء کتاب سے واقف ہیں اور پڑھتے ہیں ، دنیا کی تاریخ سے پہلے اپنی تاریخ کو جاننا بہت ضروری ہے لیکن دوستوں نے ابھی تک اپنے ممبران پر تنقید نہیں کیا ہے کہ بلوچستان کا تاریخ پہلے پڑھنا ہے، اس کے بعد باقی دنیا کی تاریخ ، جب ہم اپنے آپ کو پہچان نہ سکیں تو کتاب پڑھنے کی کیا ضرورت؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔