بلوچستان حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمت کرنے والے صحافیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی محکمہ تعلیم کی جانب سے ایجوکیشن آفیسر گوادر، تربت، جھل مگسی، نوشکی، پشین، جعفر آباد، نصیرآباد، زیارت، صحبت پور، مستونگ، قلعہ عبدللہ، لورالائی، اور خاران کو ہدایت کی گئی ہے کہ سرکاری ملازمین جوکہ الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا میں کام کرتے ہیں ان کے خلاف پندرہ دن کے اندر رولز پاکستان ایکٹ 1979 بلوچستان ایکٹ 2011 کارروائی کرکے رپورٹ دیں۔
یاد رہے کہ سینئر صحافی پیر محمد کاکڑ نے 12 دسمبر کو 110 صحافیوں کا لسٹ ہائی کورٹ میں جمع کردیا تھا اگلے پیشی میں بلوچستان کے 250 کوئٹہ پریس کلب 200 سے زائد صحافیوں کا لسٹ جمع کردیا جائے گا جسکی وجہ سے کورٹ کی جانب سے ایکشن لینا شروع ہوگیا اب سرکاری ملازمین صحافیوں کے خلاف گھیرا ہوتا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایسے درجنوں اساتذہ موجود ہیں جو اپنے درس و تدریس والے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے علاقائی پریس کلبوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ۔
بعض علاقوں میں ایم پی اے، ایم این اے اور دیگر سرکاری و قبائلی شخصیات اساتذہ کی پشت پناہی کرکے ان سے اپنے میڈیا ایڈوائزر کے کام لیتے ہیں ۔