ہمارا مقصد انقلاب یا ذات کی تسکین
حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ عرصے قبل پاکستانی مارکسسٹ، نیشنلسٹ اور ترقی پسند جماعت کے رہنما عاصم سجاد نے اسی عنوان یعنی “ہمارا مقصد انقلاب یا ذات کی تسکین” تحریر لکھ کر بائیں بازو کے سیاسی حلقوں پر تنقید کی، بائیں بازو کے حلقے اتنی زیادہ فرقہ واریت کا شکار کیوں ہیں؟ ایک طرف ہم سب سماج کو بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں، حکمرانی کے نظام کو پلٹنے کے نعرے لگاتے ہیں، حتیٰ کہ عالمی سامراج کو بھی ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر دوسری طرف ہماری ہی توانائی آپس میں لڑائیوں اور جھگڑوں میں خرچ ہوتی ہے۔
بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کے وجہ سے(Post-colonialism ) کی گند اتنی پھیل گئی ہے کہ یہاں پے طلباء سمیت دانشور بھی اپنی سیاسی لائن طے کرنے میں کنفیوزڈ نظر آتے ہیں۔ ساتھیوں اس تحریر کو لکھتے ہوئے مجھے آسکر وائلڈ یاد آتا ہے اس متعلق وہ لکھتے ہیں کہ “اسے پڑھتے ہوئے تمہیں تکلیف تو ہوگی، مگر اسے لکھتے ہوئے کہیں زیادہ اذیت مجھے ہوگی”
اسی چیز کو لینن اپنی لکھی ہوئی کتاب “?What is to be done ” خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ “اگر آپ اپنی سیاسی لائن تعین کرنے میں کنفیوزڈ نظر آتے ہیں تو یقین جانیں انقلاب کیا انقلاب کی خواہش ہی چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔
بلوچستان میں بورژوا نیشنلسٹ اور بورژوا دانشور آج بھی فرقہ واریت کا شکار ہیں، ہمارے دانشور، سیاست رہنما بے صبری کسی طلباء تنظیم کے پروگرام کے انتظار میں ہیں کہ کب کسی کو اصلی نیشنلسٹ کا نام دیں اور کب کسی کو سامراج دوست، اور سازشوں میں مصروف ملک غدار اور قومی غدار کا فتویٰ جاری کریں اور اپنی ذات کو تسکین پہنچائیں۔ لیکن ہمارے دانشوروں کے یہ دونوں حلقے اپنے سیاسی لائن میں فیل ہوچکے ہیں، فینن ان کے متعلق لکھتے ہیں “ایسا کسی صورت ممکن نہیں کہ آپ حاکم طبقے کا حصہ ہوں اور محکوم کا دوست بھی کہلائیں”
میرے کامریڈ ساتھیوں انقلاب نہ کوئی فسانہ ہے، نہ ہی کوئی نعرہ اور نہ ہی کوئی بہترین فلم ہے، انقلاب عوام لاتا ہے، انقلاب تنظیمی دوست لاتے ہیں، انقلاب قوم کے دانشور لاتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انقلاب کسی نظریہ اور فلسفہ کا لایا جائے، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر میں آواز اٹھائیں۔
ساتھیوں مجھے اس چیز سے کوئی اعتراض نہیں آپ مارکسسٹ ہیں، فیمنسٹ ہیں، نیشنلسٹ ہیں یا لیبرل ہیں لیکن ایک چیز جو اٹیلین پولٹیکل تھیوریسٹ گرامچی نے محکوم اقوام کیلئے کہا تھا کہ ” جب تک محکموں کے کلچر میں مزاحمت نہ ہو، وہ کلچر اس کیلئے زیر ہے”
دراصل بنیادی طور پر یہ ہونا تو چاہیے تھا ہمارے دانشور طلباء کو ان بنیادی “Terms ” کے حوالے سے تاریخی اور سیاسی طور پر آگاہی فراہم کرتے، اسٹوڈنٹس یونینز اور طلباء تنظیموں کے درمیان بنیادی فرق کو بیان کرتے، اسٹوڈنٹس کو کنفیوز کرنے کے بجائے اتحاد کا درس دیتے اور خود اتحاد پیدا کرتے اور یہی ایک چیز ہمارے دانشور نہیں کر پائے ابھی تک اور جس کو سامراج، فاشسٹ، ہر بار کامیابی سے کرتا ہے، وہ ہے اتحاد۔ تقسیم در تقسیم کرنے سے کیا حاصل ہوتا ہے ماسوائے کمزوری۔
یقیناً ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ دانشور، طالب علم، لکھاری ایک انسان ہے اور اسکی ذات کی تسکین ایک بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن اب ضرورت اجتماعی مقصد ہے۔ وگرنہ جب بھی ان دانشور، سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کا نام آئے گا تو سماج میں عمومی رائے بہت مثبت نہیں ہوگی۔
[6:27 pm, 12/12/2019] باہوٹ بلوچ: کولواہ حملے میں پانچ پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک و متعدد زخمی کیئے – براس
بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے نامعلوم مقام سے جاری کردہ ایک بیان میں کیچ کے علاقے کولواہ میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ براس کے سرمچاروں نے کولواہ میں مادگ کلات کے مقام پر پاکستانی فوج کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ فوجی آپریشن میں مصروف تھے۔
چار بلوچ مسلح جماعتوں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈ کے اتحاد براس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں پاکستانی فوج کے پانچ اہلکار موقع پر ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
ترجمان بلوچ خان نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج پر سرمچاروں نے اس وقت حملہ کیا، جب دشمن فوج کولواہ میں آپریشن کرکے گھروں پر دھاوا بول کر خواتین کو حراست میں لینا چاہ رہے تھے، جس کو سرمچاروں نے ناکام بنایا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بزدل دشمن فوج نہتے بلوچ خواتین پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہی تھی، ایسے واقعات روز اول سے جاری ہیں اور حالیہ سالوں میں ان میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچ سرمچار عالمی جنگی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نہتے شہریوں، خاص طور پر خواتین و بچوں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کرتی رہی ہے، لیکن اگر دشمن نہتے بلوچ خواتین و بچوں کو اسی طرح نشانہ بنانے کی پالیسی پر گامزن رہے گا، پھر بلوچ حرمت و نہتے شہریوں کے دفاع کیلئے ہم انتہائی قدم اٹھانے تک تیار ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔