کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

150

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3795 دن مکمل ہوگئے۔ ڈاکٹروں، وکلاء اور دیگر سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ بھی احتجاجی کیمپ میں موجود تھی۔

ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے گذشتہ کئی سالوں سے ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچوں کی جبری گمشدگی میں کمی کی بجائے تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پچھلے دس سالوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم پرامن جدوجہد کرتی آرہی ہے، پرامن جمہوری جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے تمام ذرائع کو استعمال کرکے بھوک ہڑتالی کیمپ، پریس کانفرنس، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور عدالتوں میں پٹیشن جمع کرتے رہے ہیں لیکن بازیابی دور کی بات تنظیم کو شروع دن سے ہی دیگر مصیبتوں و مشکلات کے ساتھ ساتھ فورسز کی دھمکیوں کا سامن رہا ہے تاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کی اس پرامن جدوجہد کو دبایا جائے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشیں ایف سی پاکستانی خفیہ اداروں اور ان کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں جبری گمشدہ کیے گئے بلوچ فرزندوں ہی کی ہیں، نام نہاد سویلین کھٹ پتلی حکومتیں اراکین اسمبلی، سینٹ اور حکومت شامل جماعتیں اس بلوچ نسل کشی میں وحشی ڈیتھ اسکواڈ خفیہ اداروں کے معاون ہے اس لیے ریاست پاکستان ہی انسانیت کے خلاف جرائم پر مبنی ان کاروائیوں کا ذمہ دار ہے۔

ماما قدیر کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم کو امید ہے کہ پرامن جدوجہد کے لیے ان کی عظیم قربانیوں کے باعث ایک نہ ایک دن عالمی اداروں، قوتوں اور رائے عامہ کا ضمیر ضرور جاگ جائے گے اور نہ صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کراہینگے بلکہ بلوچ عوام کے خلاف جنگی جرائم کے مرتکب پاکستانی سیکورٹی اداروں کے ذمہ دار، اُن کے شریک جرم افراد اور اداروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرینگے۔