وہ ماں دنوں کا حساب کیسے رکھے؟ – محمد خان داؤد

212

وہ ماں دنوں کا حساب کیسے رکھے؟

محمد خان داؤد

کیا وہ ماں جانتی ہے کہ راشد کو گم ہوئے ایک سال بیت گیا؟
کیا وہ ماں یہ بات جانتی ہے کہ وہ اب کبھی نہیں لوٹے گا اور اگر لوٹے گا بھی تو کب؟
اور وہ ماں کرے بھی تو کیا؟

اور وہ ماں کیا کر سکتی ہے سوائے ان تصویروں کو دیکھ کر جن تصویروں میں یا تو راشد مسکرا رہا ہے یا ماں اسے تک رہی ہے۔ باقی تو اس ماں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس ماں کا کوئی قصور نہیں۔ اگر قصور ہوگا بھی تو اس راشد بلوچ کا۔ پر اس کی سب سزا وہ ماں جھیل رہی ہے جسے کچھ علم نہیں، جسے کچھ پتا نہیں۔ جو بس ایک معصوم ماں ہے جسے سال تو کیا پر دن بھی یاد نہیں رہتے۔ اب جب راشد نہیں تو اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔

یہ کیسا ملک ہے، اگر کوئی غیر ملکی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو بہت دور سے اس کی ماں اور محبوبہ کو بلایا جاتا ہے۔ اس جاسوس سے ملوایا جاتا ہے۔ جاتے ہوئے وہ پھر بھی اپنے لبوں پر شکایت بھری مسکراہٹ لیے جاتے ہیں۔ تو اس ماں نے کیا قصور کیا ہے، جس کا بیٹا جاسوس نہیں تھا۔ جس کا بیٹا کوئی کلبھوشن یادیو نہیں۔

وہ تو مسکین ماں کا مزدور بیٹا تھا۔
اس نے جہاز کا پہلا سفر کسی عیاشی کے لیے نہیں پر اپنے بدن پر ظلم کرنے کو کیا تھا۔
وہ باہر کسی گوری کے عشق میں مبتلا ہو کر نہیں گیا تھا۔
وہ باہر دل فریب مناظر دیکھنے نہیں گیا تھا۔
وہ تو سب کا جہنم جیسا پیٹ بھرنے گیا تھا۔

وہ بلند و بالا عمارتیں نہیں پر وہ مال بردار گاڑیاں دیکھنے گیا تھا جن گاڑیوں میں اسے مال لوڈ کرنا تھا۔
وہ کسی پرتعیش خوشبو بھرے کمرے میں سونے نہیں گیا تھا۔
کون جانتا ہے کہ اس کی صبحیں کیسی تھیں اور شامیں کیسے تھیں!

پر ہم یہاں پاکستان میں جانتے ہیں کہ اس ماں کی راتیں کیسی ہیں!

وہ ماں جو اسے تلاشتی ہے، روتی ہے، پھر دھوپ کے دنوں میں دھول آلود پیروں کے ساتھ کسی دیوار کی اوٹ لے کر بیٹھ جاتی ہے۔

اس ماں سے دنوں کا حساب کیسے رکھا جائے گا جو بس اتنا جانتی ہے کہ اس کا بیٹا ملک سے باہر گیا، پھر لوٹا ہی نہیں۔
پر اس ماں کو دوسرے لوگ بتاتے ہیں کہ راشد کو گم ہوئے ایک سال بیت گیا۔

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ اس ماں کے لیے بس ایک سال ہی تھا!
اور ایک سال کیا ہے؟
کیا کوئی جانتا ہے کہ ہجر کا ایک لمحہ کیا ہوتا ہے؟
اور اگر اس ہجر کے لمحے میں درد کا بھی سایا ہو تو پھر….!!

وہ ماں بھی ہجر بھرے درد کا ساماں لیے کراچی آئی ہے کہ کوئی تو اس کی ان آنکھوں کو دیکھے جن آنکھوں میں اذیت، انتظار، خوف اور دکھ کا موسم ٹھہر سا گیا ہے۔
پر اتنے بڑے شہر میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ ماں دیوار کی اوٹ لیے کسے تلاش رہی ہے اور اب کیوں تھک کر بیٹھ گئی ہے۔

راشد بلوچ کلبھوشن یادیو نہیں،
اور وہ ماں اور اس کی سکھی کلبھوشن کی ماں اور محبوبہ نہیں
تو پھر بھی وہ درد کی داستان کیوں بنی ہوئی ہیں؟!!

کیا اس دو کروڑ کے شہر
تین کروڑ کے صوبے
اور بائیس کروڑ ملک والی آبادی میں
کوئی ایسا نہیں جو پوچھے کہ راشد بلوچ کہاں ہے؟

جس کے لیے ماں رو رو کر اندھی ہو رہی ہے اور اس کی محبوبہ اس کی راہ تکتی ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔