نیا سال اور امیدیں – امجد دھوار

362

نیا سال اور امیدیں

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

نیا سال وہ وقت یا دن ہوتا ہے جس میں ایک نیا کیلنڈر سال شروع ہوتا ہے اور کیلنڈر کے سال کی گنتی میں ایک ایک کر کے اضافہ ہوتا ہے بہت سی ثقافتیں اس پروگرام کو کسی نہ کسی انداز میں مناتی ہیں اور یکم جنوری کو اکثر قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والے کیلنڈر سسٹم گریگوریئن کیلنڈر میں نیا سال یکم جنوری کو شروع ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں، تب انسان امید اور نا امیدی کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے امید کچھ حاصل ہونے کا احساس ہوتا ہے کہ فلان چیز میں حاصل کرونگا اور نا امیدی کچھ نا ملنے کا ڈر ہوتا ہے خدا پر امید رکھنا اور نا امیدی کے احساس کو مٹا دینا یہی ایمان ہے اللہ کی طرف دیکھ کر امید جاگتی ہے اور دنیا کی طرف دیکھ کر امید دم توڑ دیتی ہے

نئے سال کے آتے ہی دنیا میں ہر طرف خوشیاں مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہے ہر کوئی اسی خوشی میں شریک ہونے کی بھرپور کوشش کر کے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے دوسری طرف نئے سال کے آتے ہی کچھ لوگوں کی امیدوں میں اک نئی کرن اٹھتی ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہے جن کی زندگیوں میں کئی ایسے نئے سال آکر چلے گئے جن سے وہ امید رکھتے تھے اور بے حد محنت کرنے کے باوجود بھی نا امید ہوچکے ہے مگر پھر بھی نئے سال کے آتے ہی وہ وہی امید پر زندہ ہے کہ شاید اب کی بار وہ کامیاب رہینگے اور یہ امید ان کو لمحہ لمحہ ستاتی ہے کیونکہ اسی امید میں ان کی زندگی ہے یہ وہ امید ہے جس امید میں اکثر کسی ماں یا پیر مرد والد کی شکل میں ہوتی ہے یا کسی بہن کی شکل میں ہوتی ہے یا تو کبھی کم سن نو عمر بچے کی شکل میں ہوتی ہے۔

ایسی امیدیں روز ہمیں روڈوں پر دکھائی دیتے ہیں، وہ اپنے امید کو لے کر کبھی بھی کسی قربانی سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہر مشکل امتحان کو پاس کرتے رہتے اور آگے بڑھتے رہتے ہیں، وہ اپنی امید لے کر دنیا کی ہر خوشی کو بھول جاتے ہے اس امید میں بہت سی بہن بہت سے ماں بہت سے بچے تڑپ تڑپ کر زندہ لاش بن جاتی ہیں۔ ان کی حالت اسی امید کی وجہ سے ایسے ہو جاتی ہے جس کو سوچنے کا تصور کرنے سے بھی ہم جیسوں کی روح کانپ اٹھ جاتی ہے۔

یہ وہ امیدیں ہے جن کو ہر ماں ہر روز اپنے سینے سے لگائے رہتی ہے ان امیدوں میں وہ ماں ہوتی ہے جو ہر روز اپنے دسترخوان پر اپنے لخت ء جگر کی جگہ پر اس کی تصویر رکھ دیتی ہے اور امید کرتی ہے کے اگلے لمحے میں اس کا لال آئے گا، یہ وہ امیدیں ہوتی ہے جن میں ہر ماں ہر عید کو اپنے لال کیلئے نیا جوڑا سلوا کر یہی امید کرتا ہے کہ میرا بیٹا اس عید کو اپنے نئے کپڑے پہن کر اپنے دوستوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنے جائیں گا یہ وہ امیدیں ہے جن میں ایک بہن اپنے بھائی کے یونیوسٹی کے کپڑے پریس کر کے تیار رکھ دیتی ہے کہ اب میرا بھائی لوٹ کر آئیں گا اور دوستوں کیساتھ یونیوسٹی جائیں گا یہ وہ امیدیں ہے جن میں شفیق اور مہربان والد اس امیدوں میں ہوتا ہے کہ موبائل فون پر آنے والا کال میرے بیٹے کی ہو گی، یہ وہ امیدیں ہوتی ہیں جن میں ماں رات کے اس پہر میں بھی جاگتی رہتی ہے جن میں خوبصورت پرندے بھی آرام کرتے ہیں۔ بس یہی امید میں ہوتی ہے کب گھر کی گھنٹی بجے گی کب میرا لال گیٹ کے اندر داخل ہو گا یہ وہ امیدیں ہوتی ہے جن میں کسی کا منگیتر اسی انتظار میں ہوتا ہے کب میں وہ آواز میرے کانوں گونج اٹھے گی وہ آواز جس کیلئے میرے کان ترس گئے۔ یہ وہ امیدیں ہے جن کے انتظار میں ایک بچہ ہوتا ہے کہ کب میرا بابا آئیں گے اور کب ہم شاپنگ کرنے جائیں بچے روز ہی یہی سوال کرتے ہیں ہمارا بابا کہاں ہے جسے ہم دیکھ بھی نہیں سکتے نا ہمیں اس کا کچھ پتہ ہے آخر ہمارے بابا کب آئیں گے یہ وہ امیدیں ہے جن میں درجنوں بھر نئے سال گزر گئے مگر یہ امیدیں پورا ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ہم کیسے اس سال کو خوش آمدید کہے جو ہر سال ہمیں نا امید کرتا ہے ہمارے لئے نیا سال تب ہو گا جب ہمارے پیارے لوٹ کر آئیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔