میں اسلم کے عہد میں جی رہا ہوں ۔ سلمان حمل

446

میں اسلم کے عہد میں جی رہا ہوں

تحریر : سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کچھ لوگوں کو یاد کرکے فخر محسوس کرتا ہوگا، جنہوں نے تاریخ کو خون سے رقم کیا۔ مصائب مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے آگے بڑھنے کا جنون ہو تو کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ میں اپنے اس بات کو منوانے کیلئے اگر دلائل پیش کروں تو مجھے دور جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

جب کبھی میں اس بابت سوچتا ہوں کہ لوہا بھٹی میں گرکر کندن بنتا ہے۔ انسان کیسے مشکلات کا سامنا کرکے سرخرو ہوتا ہے۔
ناممکن کیسے ممکن بن جاتا ہے۔
حالات کو کس طرح قابو کرکے اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مقصد اور منزل کو کیسے اولین درجہ دیا جاتا ہے۔
جان ہتھیلی پر رکھ کر دیوانے کس طرح سفر در سفر نکلتے ہیں۔
ہر چیز سے بے غرض آسائش اور آرام سے کوسوں دور کون کب اور کیسے کانٹوں پر سفر کرتا ہے۔
تو دور دور تک سوچنے کے بعد خیالوں کا پڑاؤ قریب ہی ہوتا ہے۔
اتنا قریب کہ جسے خود سے جدا نہیں کرسکتے۔
تو وہ پڑاؤ عہد اسلم جان پر ہوتا ہے۔

بلوچستان بلوچ اور مزاحمت خود اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ میں بھی تاریخ ملتے ہیں جو نایاب ہیں۔ جنہیں بھول کر بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔

آج اُس شخص کے بابت لکھنے کا سوچ رہا تھا، جس سے صرف ایک بار دوہزار تیرہ میں ملا تھا اور اُس وقت سیاسی کشمکش بھی عروج پر تھے۔ ہر طرف کھینچا تانی تھا، ہر کوئی بازی لے جانے کا سوچ رہا تھا۔ اور ملاقات میں بحث بھی اسی موضوع پر تھا۔ پتہ نہیں اس مجلس میں میں نے کیا بکا تھا اور کیا کہہ گیا تھا۔ مگر وہ انتہائی نرم گوئی سے اپنا موقف پیش کررہے تھے اور ہر ایک سوال پر مفصل انداز میں جواب دے رہے تھے۔ مگر آج یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ انمول تھا۔ کیوں وہ مجلس صرف ایک آدھ رات تک رہا اور ختم ہوا۔ کیوں اُس سے مزید سیکھنے کی موقع ہاتھ سے گیا۔

آج انکے بابت لکھتے ہوئے کس حد تک اس کردار سے انصاف ہوگا۔ اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے عمل کے اعتراف میں میرا یہ تحریر مکمل ناانصافی پر مبنی ہوگا میں اس کردار کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوں گا۔ وہ شخص اسلم بلوچ ہے جس کے بابت میں لکھنے کی کوشش میں ہوں۔
اسلم بلوچ ایک ایسے کردار ہیں۔ اگر کوئی ایمانداری سے قلم اُٹھا کر اسلم جان کے بابت لکھنے بیٹھ جائے تو ایک ڈائری کے پنے بھی کم پڑجائیں گے۔

تحریک کے ابتدا میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کردار نبھانے والے اسلم نے ارتقاء کے وہ منازل طے کیے جو کسی کو نصیب نہیں ہوئے۔ زمہ داری اور ذہانت نے جلد اسلم کو ایک کمانڈر کے طور پر بلوچ سماج میں متعارف کیا۔ اور کام سے جنون کے حد تک لگاؤ نے اُسے ہر ساتھی کا ہر دلعزیز بنا دیا۔

اسلم جان کے شخصیت کا ایک اہم باب یہی ہے کہ وہ مسلح جدوجہد میں ایک بے غرض اور جانثار سپاہی کے طور پر آئے اور ایک ذمہ دار جرنل کے طور پر چلے گئے۔ یقیناً اسلم سے جنرل اسلم کی سفر میں انہوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہونگے۔ جہد کی ابتدائی حالات سے لے کر کمزوری اور تنگ نظری سودا بازی، کمپرومائز سب انہوں نے اپنے آنکھوں سے دیکھے تھے تب جاکر وہ ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھرے۔ دوران جنگ کوئی مستقل لیڈر نہیں ہوتا جنگیں لیڈر پیدا کرتے ہیں اور اسی طرح جنرل بھی جنگ کا پیداوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے لیڈران سے ایک الگ حیثیت اور مقام کے مالک ہوگئے، وہ جنگی تدبیر طریقہ کار اور اصول سے انتہا کی حد تک واقف تھے اور حالات کے مطابق وہ سیاسی داؤ پیچ سے بھی واقف ہوئے۔

جنگ اور سیاسی داؤ پیچ پر دسترس راست گوئی ایمانداری اور فیصلے کے قوت بھی رکھتے تھے۔ آج بھی جب میں انکے فیصلوں پر سوچتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ وہ حالات جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ تھے مباحثوں میں ایک دوسرے کے طریقہ کار پر اختلاف سے زیادہ ہم انا کا تسکین کی خاطر کیچڑ اچھالتے تھے اور کبھی کبھار نوبت دشنام طرازی اور بے ہودہ الزامات تک بھی پہنچ جاتا تھا۔ اس تمام دورانیئے میں ہم اتحاد اور یکجہتی کا امید تو رکھتے تھے مگر اتنے جلدی میں بلوچ اتحاد ہوگا اور عملی طور پر اُس کا مظاہرہ بھی کیا جائے گا یہ امید نہیں تھا۔ مگر اسلم جان نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے یہ جرات کی ہم سے جو کچھ ہوا ہے ہم اپنے غلطیوں کو مان لیتے ہیں اور اب عملی طور پر اتحاد و یکجہتی کرنا چاہتے ہیں۔ یقیناً یہ عمل ایک طرف سے ممکن نہیں تھا، سامنے سے بھی یہی سوچ تھا مگر اسلم جان نے پہل کرکے خود اپنے غلطیوں کو تسلیم کرکے بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا ترغیب دیا یہ سہرا اسلم جان کے سر سجتا ہے۔

تحریک اور جنگ میں شدت کیلئے اسلم جان کے شب و روز محنت بھی کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں اور نہ ہی میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ان کے ساتھ انصاف کر پائے گی جو میں نے پہلے واضح کی ہے۔

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب مایوسی کا عالم تھا، قوم میں ساتھیوں میں سماج میں اور ایک جمود چھائی ہوئی تھی، اُس جمود کو بھی توڑنا تھا اور اسلم جان یہ کام بھی اپنے کندھوں پر لیا اور فدائی حملوں کے تسلسل کو جاری رکھا اور اس بار فیصلہ ریحان نے کیا اور سلیکشن اسلم جان نے یہ کیسا لمحہ ہوگا ایک باپ کیلئے جو اپنے جوان بیٹے کو ٹریننگ دے رہا ہے کہ ایسے حملے کیلئے کہ جہاں سے واپسی بھی نہیں ہے۔ اسلم جان نے بالاچ کے قول کو عملی شکل دے دیا کہ ہم ون وے پر سفر کررہے ہیں۔ ون وے پر سفر کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کا منزل پانا۔

یہ لمحے شاید وہ سمجھ سکتے ہیں جو گلزمین سے بلوچ قوم سے اپنے مقصد سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں۔ یقیناً اس دوران اسلم جان کی خوشی بھی قابل دید تھا، جو ایک عاشق زمین ٹہرے۔ ان کیلئے اس لمحے زیادہ خوبصورت لمحہ کیا ہوگا جو زمین کے قرض کے ادائیگی میں بیٹھے کا لہو دے رہا ہے۔

اسلم جان چھوٹے موٹے مسائل کو ایک طرف رکھ کر اہم مسئلے پر نظر مرکوز رکھتے تھے، وہ مسئلہ تھا سرزمین کی حفاظت قومی آزادی۔ جبکہ یہ تلخیاں یہ مسائل یہ توتو میں میں اُس وقت بھی تھے اور آگے بھی ہونگے مگر اسلم کے فلسفے کو اپنانا ہوگا کہ ان مسائل کے باوجود اعتماد کے ساتھ جنگ کو شدت سے آگے لے جانا ہوگا اور ان مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا۔

آج بھی اس جنگ کو مزید شدت اور شدت کی ہی ضرورت ہے اس بابت سوچنا ہوگا منصوبے بنانے ہونگے اور جنگ جاری رکھ کر ہم اسلم کو خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں۔

اسلم بلوچ نے اپنے اعمال و کردار سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ لیڈر ہے کیونکہ میکس ویل لا آف لیڈر شپ میں لکھتے ہیں کہ لیڈر کیلئے ضروری ہیکہ وہ با اعتماد ہو اس پر لوگ اعتماد کریں اور یہ اعتماد کردار سے حاصل کیا جاتا ہے اور اسلم جان نے عملی طور پر کردار ادا کرکے تنظیمی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ہم تمام کا اعتماد بحال کیا تھا۔ وہ خود سے اپنے گھر سے اپنے بچوں سے پہلے جہد اور جنگ کے بابت سوچتے تھے وہ گھریلو ضروریات سے پہلے جہد اور جنگ کے ضروریات کو پوار کرنے کیلئے تگ و دو کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ہمارے دماغوں پر راج کررہا ہے۔

اسی کتاب میں آگے یہ بھی لکھا ہے کہ لیڈر کیلئے رابطہ بھی ضروری ہے اور اسلم نے یہ بھی اپنایا تھا وہ ہر کسی کے ساتھ روابط بلا تفریق کرتے تھے، چاہے وہ جونیئر اور سینیئر کا فرق صرف ذمہ داری کے حد تک رکھتے تھے وہ مسلسل ساتھیوں کا حال احوال پاس رکھتے تھے، جو ایک لیڈر کیلئے انتہا کی حد تک ضروری ہے۔

نہ صرف ایک لیڈر کے تمام خصوصیات اسلم جان میں تھے بلکہ وہ جنگی خصوصیات بھی اسلم جان رکھتے تھے بقول چی گویرا کہ ہمیں دشمن سے انتہا کی حد تک خود نفرت کرنا ہے بلکہ ساتھیوں کو بھی دشمن سے نفرت کا درس دینا ہے تاکہ ہم دشمن پر رحم نہ کریں اور دشمن سے مقابلہ کرسکیں اسلم جان بھی یہی درس دیا تھا اور عمل بھی کرکے دکھایا تھا۔

میں آج جب یہ تحریر کررہا ہوں تو مجھے بے حد فخر ہے کہ میں اسلم کے دور میں جی رہا ہوں اور افسوس بھی کررہا ہوں کے اسلم سے ملاقات صرف ایک بار ہوا میں جنرل اسلم کے ساتھ مزید وقت بتانا چاہتا تھا، مزید سیکھنے کا خواہش رکھتا تھا، مگر جنگ نے یہ موقع نہیں دیا مگر پھر بھی فخر ہے مجھے کہ میں اپنے جنرل کے عہد میں اس کارواں کا حصہ ہوں، جس کا منزل ایک آزاد وطن اور آزاد سماج ہے اور جنرل کے افکار ہمارے رہنمائی کررہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔