نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پرویز مشرف کو اگر شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پر پھانسی کی سزا ہوتی تو بلوچ قوم یہ سمجھتی کہ اسلام آباد نے بلوچوں کو ساتھ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے مرکزی مجرم کو سزا دلا دی مگر پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا قانون توڑنے کی وجہ سے دی گئی ہے یہ وہ قانون ہے جس کو ریاست کے اپنے ادارے دانستہ طور پر توڑ رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہر ریاست کا قانون ریڈ لائن ہوتا ہے اور اس ریڈ لائن کی پاسداری ہر شہری اور ریاستی اداروں پر فرض ہے کہ وہ اس کی پوری طرح سے قدر کریں اور اس کی پامالی کو ہرگز ہونے نہ دیں مگر بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز کیے جاتے ہیں اور ان آپریشنز میں بے گناہ بلوچوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا جاتا ہے بعض اوقات ان آپریشنز میں عام بلوچوں کو شہید بھی کیا جاتا ہے مگر ان تمام واقعات کو میڈیا رپوٹ نہیں کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 40 ہزار بلوچ مرد، خواتین اور بچے لاپتہ ہیں۔ حال ہی میں کوئٹہ سے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کر دیا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اب اگر ریاست یہ کہتی ہے کہ قانون کی پاسداری کرو تو سوال یہ اٹھتا ہے کونسا قانون؟ وہ قانون جس کو ریاستی ادارے خود توڑ رہے ہیں وہ قانون جس کو ریاست کے سیاستدان بدترین کرپشن کرکے خود توڑ رہے ہیں اس کی پاسدرای عام عوام کیسے کرے گئی؟
پرویز مشرف کے دور حکومت میں بے گناہ بلوچوں کو شہید کیا گیا کئی ہزار بلوچوں کو علاقہ بدر کیا گیا اور وہ آج تک واپس اپنے علاقوں میں جا نہیں پارہے، لاپتہ افراد کا سلسلہ بھی پرویز مشرف کے دور سے شروع ہوا اصغر بنگلزئی پرویز مشرف کے دور حکومت سے لاپتہ کیے گئے ہیں جوکہ آج تک لاپتہ ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی اگر شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پر ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھا گیا مگر اس کو پھانسی اس آئین توڑنے کی وجہ سے ہو رہا ہے، زیادہ مناسب یہ ہوتا کہ جنرل پرویز مشرف کو بلوچوں کی قتل عام پر پھانسی کی سزا ہوتی۔