بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئٹہ سے بلوچ خواتین کی اغواء نما گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قابض ریاست آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار بلوچوں کے سامنے شکست کھا کر بلوچ خواتین کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پاکستان دن کی روشنی میں اور دنیا کی نظروں کے سامنے واضح طورپر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ ہم اپنے دشمن سے یہ التجا نہیں کرتے کہ برسرپیکار اور مسلح لوگوں سے رعایت برتی جائے بلکہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ دنیا پاکستان کو جنگی قوانین کے احترام کیلئے پابند کرے۔ ہم نے بارہا دنیا سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کو جنگی قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے لیکن اس کا صلہ ہمیں یہ مل رہا ہے کہ ہمارے خواتین و بچے، بزرگ اور نہتے لوگ پاکستان کے جنگی جرائم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ سے خواتین، چھوٹے بچوں اور عمر رسیدہ بلوچوں کا اغوا اور گمشدگی اجتماعی سزا کی پالیسی کا تسلسل اور جنگی و عالمی قوانین کو بندوق کی نوک پر رکھنے کی واضح علامت ہے۔ جب ہم کسی بھی قانون کی بات کرتے ہیں تو اس قانون کو تخلیق کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے نافذ کرنا بھی تخلیق کارروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اسی طرح جب ہم جنگی قوانین یا اقوام متحدہ کے کنونشنز کی بات کرتے ہیں تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد کے لئے دستخط کنندگان کو پابند کرے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ اپنے فرائض سے صریحاً غافل دکھائی دیتے ہیں جس کی قیمت بلوچ قوم کو اپنی جان و مال اور لٹتی عزتوں اور تذلیل سے چکانی پڑرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجتماعی سزا کی پالیسی کے تحت مختلف علاقوں سے نہ صرف خواتین کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے بلکہ وہ ایک عرصے تک خفیہ زندانوں کی اذیتیں جھیلتے ہیں۔ کبھی کبھار چند ایک کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اکثر صورتوں وہ ہمیشہ کے لئے زندان کی نذر ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہا سات سالہ امین ولد حاجی دوست علی بگٹی، عزتون بی بی بنت ملحہ بگٹی، مراد خاتون بنت نزغو بگٹی، مہناز بی بی بنت فرید بگٹی، ساٹھ سالہ حاجی دوست علی ولد ملوک بگٹی اور اسی سالہ فرید بگٹی کا جرم محض بلوچ ہونا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا پاکستان کے آئین کے مطابق ہمیشہ کے لئے فوجی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہنا ہے۔ ایک فسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ یہ جان کر کہ اٹھائے جانے والے لوگ کہاں ہیں ان کے لئے لاپتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے الفاظ کو ترک کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس بات پر کسی بھی ذی شعور انسان کو رتی بھر شک نہیں ہے کہ یہ پاکستانی فوج کی غیرقانونی اذیت گاہوں میں قید ہیں۔ اور وہاں وہ جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں کا اغوا اجتماعی سزا کی پالیسی ہے۔ اس کے تحت پاکستان بلوچ قوم کو نیست و نابود کرکے بلوچ قومی تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ہزاروں بلوچ پاکستان کے ہاتھوں لاپتہ ہیں اور ہزاروں شہید کئے جا چکے ہیں۔ خواتین و بچوں اور نہتے لوگوں کو دنیا کے ہر قانون میں کسی بھی صورتحال میں تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان ایسی اخلاقیات سے عاری ایک غیر فطری ریاست ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔ اسی لئے بلوچوں کو بھی ابھی اجتماعی قوت کیساتھ پاکستان کے ان مظالم کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
چونکہ پاکستان کی اپنی نہ کوئی ثقافت اور نہ کوئی خاص شناخت ہے اور نہ ہی آج تک ہم پاکستان میں کوئی تاریخی یا عظیم شخصیت دیکھ سکے ہیں جس نے اپنی ریاستی پالیسیوں کے خلاف حق و سچ کا ساتھ دیا ہو۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جسے وہ عظیم رہنما کہتے ہیں وہ خود بلوچ ریاست کے تنخواہ دار اور پیشہ ور وکیل رہے تھے۔ جس نے اپنے موکل کو دغا دے کر بلوچستان پر قبضے کا فرمان جاری کیا تھا۔ ایسی ریاست سے حق و انصاف کی امید رکھنا ہی عبث ہے۔ یہاں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ واضح جنگی جرائم پر پاکستان کی سرکوبی کے لئے عملی اقدام اٹھائے۔