ظلم کو ظلم نہ لکھنا – سمیرا بلوچ

1189

ظلم کو ظلم نہ لکھنا

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظلم کہتے کسے ہیں، آخر یہ ظلم ہوتا کیا ہے؟ کسی انسان کے ساتھ برا برتاؤ کرنا، کسی انسان کو اسکے حقوق سے محروم رکھنا، ناانصافیوں کے خلاف بولنے نہ دیا جاۓ، سچ بولنے والے کی آواز کو دبا دیا جاۓ۔ میرے خیال میں سب سے بڑا ظلم تو یہی ہے کہ جو ظلم کیا جاتا ہے اسکے خلاف بولنے بھی نہ دیا جاۓ۔ درحقیقت جو ظلم کرتے ہیں۔ جو ظالم ہوتے ہیں، وہ بڑے ہی بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں ایک بزرگ سے پوچھا گیا، کہ اچھے اور برے کام میں تمیز کیسے کی جا سکتی ہے؟ تو اس بزرگ کا جواب تھا کہ جو کام چھپ کر اور چوری سےکیا جاۓ تو جان جانا کہ وہ برا کام ہے۔

پاکستان کی آرمی رات کے اندھیرے میں آکر بلوچ آبادیوں پہ حملے کرتی ہے۔ بلوچ مرد، عورتوں، بزرگوں ، بچوں کو اغواء کرکے انھیں گم نام زندانوں میں قید کرتی ہے،اور اپنے کارناموں کو دنیا سے چھپانے کے لیے لکھنے اور بولنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اگر پاکستان کی آرمی یہ کارروائیاں حق کی بنیاد پر کرتی تو یوں اسے چھپانے کی کوشش نہ کرتا۔ پاک فوج کی ظلم کی داستان لمبی ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اب روزانہ کی بنیاد پر بلوچ خواتین اور بچوں کو اغواء کیے جاتے ہیں، بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس کی سیاسی تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بلوچوں کو سیاست سے دور رکھ کر انھیں انکی بنیادی حقوق کے جد وجہد سے دور رکھنے کی کوشش کیا جا رہا ہے۔ سیاست نہ صرف طلبا بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہر شہری اور طلباء و طالبات کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی طور پر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔ اگر ووٹ دینا ہر بالغ شہری کا ذمہ داری ہے تو سیاست کرنا بھی ان کا فرض ہوتا ہے۔

بلوچستان کو جان بوجھ کر ایک منظم سوچی سمجھی سازشی منصوبے کے تحت صدیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ سیاست ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے ہم اپنے حقوق سے آگاہ ہوتے ہیں اور سیاست ہی کے ذریعے ہم اپنے حقوق کے لیئے آواز بلند کرکے اور جدو جہد کرکے انھیں حاصل کرتے ہیں۔ تو اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی عائد کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے؟

ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے پورے پاکستان کو قدرتی گیس کی فراہمی ہوتی ہے۔ لیکن ڈیرہ بگٹی میں نہ کوئی تعلیمی ادارے ہیں اور نہ زندگی کی دوسری بنیادی سہولیات موجود ہیں۔ کچھ دن قبل ٹویٹر پر نوجوانوں کی طرف سے ڈیرہ بگٹی میں میڈیکل کالج کی قیام کے لیے آواز اٹھائی گئی اور کٹھ پتلی حکمران جماعت سے یہ درخواست کیا گیا تھا کہ ڈیرہ بگٹی کے طالبات کو یہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیرہ بگٹی میں خواندگی کی شرح صرف دو فیصد ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں ایک انٹر کالج ہے اور ماڈل سکول و کالج لڑکی اور لڑکوں کے لیے اور وہ بھی پی پی ایل کے ماتحت ہے، اب باقی سرکاری کاغذوں میں بہت بنے ہونگے لیکن عملی طور پر کوئی سکول اور کالج موجود نہیں ۔ جو سکول تھے یا تو وہ بند کر دیئے گئے یا ملٹری آفیسروں کے حوالے کر دئیے گئے۔ تو یہ صورت حال بلوچستان کے اس علاقے کی ہے جس سے پورا پاکستان چلتا ہے، اور سالانہ کھربوں کا منافع اسکے قومی خزانے کو بلوچستان سے ملتا ہے۔

صرف یہی ایک علاقہ ہی نہیں پورا بلوچستان انہی محرومیوں کا شکار ہے۔ بلوچوں کی حالت زار فقیروں کی سی ہے۔ بلوچ شروع دن سے ہی پاکستان کے ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب بلوچ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے ننگ و ناموس کے تحفظ کی جنگ بھی پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اپنی ماؤں ، بہنوں کی عزت کی تحفظ کی جنگ، اپنے بنیادی حقوق تعیلم اور سیاست کرنے کی جنگ، اپنے ان پیاروں کی بازیابی کی جنگ جو پاکستان کے کال کوٹھڑیوں میں صرف اپنے بلوچ شناخت ہونے کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

“پاکستان ظلم کرکے بھی برا نہیں اور بلوچ کو اپنے حقوق کی جنگ کرنے میں برا بنا دیا گیا ہے”۔ پاکستان ظلم کرکے ظلم کو چھپانے کی ناکام کوششوں میں لگا ہے۔ بلوچ جنگ کرکے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو کے کھڑا ہے، دیر ہی سے سہی لیکن جیت ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا،ظلم کی رات لمبی ہی سہی لیکن سویرا ضررو ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔