جنرل اسلم ایک مفکر – نودشنزمندی

210

جنرل اسلم ایک مفکر

تحریر: نودشنزمندی

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے اوراق پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، اسلم جیسے تو بہت ملے پر اسلم نہ مل سکا۔ انسان ایک “جون و پوست” “کھال اور جان” کا ملاپ ہوسکتا ہے پر اس “جون و پوست” میں انسانیت تب ہو سکتی ہے جب وہ انسانیت دشمن کام نہ کریں، لیکن اگر اس کیفیت کی بلند ترین سطع تک پہنچانا ہو تو یہ تب ممکن ہے، جب وہ انسانیت کی خاطر، اسکی بقاء کی خاطر، اسکی سر بلندی کی خاطر کچھ ایسا کر گذرتے ہیں، جو تاریخ کے سیاہ پنوں میں مٹا کر بھی نہ مٹ سکے۔ اسلم ایک فکر ہے جو عقل و شعور کے اس اعلیٰ ترین مقام تک رسائی حاصل کر چکا ہے کہ اسکیلئے اسکی سرزمین ہر مادی اور غیر مادی چیز سے بلند اور برز اور عزیز تر تھا۔ ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھول سکتی جو اپنے سر کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے وطن مادر کی خاطر دشمنِ بد فعل سے دو بدو ہوکر لڑتے ہیں۔ اس شخص کو تاریخ بھولنے کی غلطی تو ہر گز نہیں کر سکتی، جو اپنے جان ومال سے بڑھ کر اپنے اولاد جسکی سگائی چار مہینے پہلے ہوئی تھی جسکی شادی کی مرادیں “مادر سرمچار” اور بہنوں نے دیکھی ہو ، اسے بارود سے لپیٹ کر وطن مادر کی خاطر دشمن پر قہر بنا کر بھیج دیتا ہو۔

اسلم ایک فکر ہے جو فدائی کا کانسپٹ اور نظریہ بتاتا ہے، جو ایک سرمچار کو سرباز بناتا ہے، جو قربانی دوسروں سے مانگنے کے بجائے خود سے شروعات کرنے کا درس دیتا ہے۔ اسلم ایک شخص نہیں ہوسکتا اسلم ایک سوچ کا نام ہے، اسلم ایک فکر کا نام ہے، اسلم ایک محبت کا نام ہے، اسلم تو عشق کے اعلیٰ ترین مقام کا نام ہے۔ دنیا فانی ہوسکتا ہے بلکہ وہ فانی ہے، کائنات کی ہر شہ فانی ہے لیکن آسلم ایک امر اور نا ختم ہونے والی سوچ و فکر کا نام ہے۔ اسلم اپنے روپ اور شکل شاید بدل کر جنم لے مگر وہ ہر اس مادر وطن کے سپوت میں زندہ ہے جو مادر وطن کو اپنے ہر مادی اور غیر مادی چیز سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو۔

جنرل اسلم کی شہادت سے کچھ دن قبل انکا ایک ٹویٹ آیا تھا جہاں انہوں نے لکھا تھا کہ
“ہم آزادی یا شہادت کے فلسفے پر گامزن ہیں” اب اگر اس فقرے کو ایوالویٹ کریں یا اسکی پڑتال کی جائے تو اس سے انکے سوچ تک اور اس سوچ کی پختگی کا پتا لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے اور کس حد تک اپنے قول و فعل کو ایک ہی راہ دکھا کر اس سوچ کے پیروکاروں کے جھنڈ کو فعال کیا۔ یقیناً دشمن اسلم سے نہیں بلکہ اسلم کے فکر سے خائف تھا کیونکہ اسلم خود تو شاید مادی طور پر ہم سے دشمن دور کرنے میں کامیاب ہو گیا پر اسلمی سوچ کو وہ اور پختہ کرکے چھوڑ گیا۔ اسلم اگر کہوں کہ ایک ہمہ وقت چاک و چوبند سرمچار تھے تو وہ آج بھی چاک و چوبند ہیں، ہر اس سرمچار میں جو اسلم کے بتائے اور چلے ہوئے راستے پر گامزن ہیں۔ میں سمجتھا ہوں کہ اسلم آج ایک فکر بن کر اسی طرح چاک و چوبند بلوچوں کے سنگروں میں مورچہ بند دشمن کا منتظر ہے۔

آج اگر بلوچ کو پنجابی یلغاری فوج ایک قوم کی حیثیت سے جانتی ہے، بطور دشمن ہی سہی تو اسکا سہرا بلوچ جہد کاروں کے سر جاتا ہے اور اس جہدآزادی کو ایک درست سمت پر ڈالنے میں جو کردار ادا کرنے میں کچھ نام پیش پیش ہیں ان میں جنرل اسلم کا نام سرفہرست جانا اور مانا جاتا ہے۔ بلوچ جہد آزادی کو نہ صرف ایک تنظیمی ڈھانچے میں ڈھالنے میں کردار ادا کیا بلکہ اسکو کم درجے کے انسرجنسی سے نکال کر دنیا کے سامنے عیاں کیا جسکی مثال بلوچ جہد کاروں میں وطن پر فدا ہونے کی روایت کو فروغ دینا جو مجید برگیڈ کی شکل میں دشمن پر کئی وار کر چکی ہے نہ صرف دشمن کو زیر کرنے میں کردار ادا کیا ہے بلکہ دنیا میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے اور دنیا میں بلوچ کے مسئلے اور سوال کو زیر بحث لایا۔
یقیناً ۲۵ دسمبر وہ سیاہ دن ہے جس دن بلوچ وطن اپنے ایک ایسے سرمچار اور ایک ایسے سپوت سے محروم ہوا کہ جسکا نام لینے سے دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ اسلم اپنے فکر و استادی سے بلوچ جہد کاروں میں ایک ایسا کھیپ بنا کر چھوڑ گیا ہے جو اس جہد کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا ینگے۔

آزاد وطن ہی اسلم اور ان سپوتوں کے خون کی قیمت ہوسکتی ہی جو بلوچ وطن کیلئے اپنی جانوں کا نذرانا پیش کر گئے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔