جنرل استاد اسلم بلوچ
میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“اگر ہم نہ بھی رہے تو یہ جدوجہد جاری رہے گی، یہ غیرت مند بلوچوں کی جدوجہد ہے، ہم آٹھ افراد نے اس سفر کا آغاز کیا تھا، پھر کہیں سے نواب اکبر بگٹی اور کہیں سے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ مزاحمت کرنے لگا۔ آج ہماری تعداد زیادہ ہے ہمارے وسائل زیادہ ہیں ہمارے ساتھ زیادہ طاقت ہے اور کسی کے سرینڈر کرنے سے یا مرجانے سے یہ جدوجہد نہیں رکے گی، آج نہیں تو کل ہم سب کو مرجانا ہے۔ لیکن یہ جدوجہد جاری رہے گا اگر ایک ساتھی شہید ہوگا تو اسکی جگہ کوئی اور آجائے گا۔” یہ تاریخی الفاظ یہ پرامید باتیں جنرل اسلم بلوچ نے اپنی شہادت سے کچھ دن قبل اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں کہی تھیں۔
جنرل اسلم یا اُستاد اسلم بلوچ، بلوچ تاریخ کا ایک ایسا باب بن چکے ہیں جنہیں جتنا پڑھا جائے، لکھا جائے، سمجھا جائے، سوچا جائے، دیکھا جائے، سُنا جائے، انکے راہ پر چلنے کی کوشش کی جائے یا انکے اعمال کو دہرانے کی کوشش کی جائے پھر بھی انکے کردار انکے عمل، انکی ذہانت، انکی دانشمندی، انکی جنگی مہارت، انکی سیاسی سوج بوجھ اور زمینی حقائق سے باخبری جیسی مثال صدیوں میں بھی ملنا ناممکن ہے۔
اُستاد اسلم ایک ایسے ادارے کا نام ہیں جنہوں نے نہ صرف بلوچ مزاحمت کو ایک نیا رخ دیا، بلکہ بلوچ قومی سوچ بلوچ قومی سیاست اور بلوچ ادب پر بھی ایک ایسا چھاپ چھوڑ گئے ہیں کہ آج جنرل شہید اسلم بلوچ کے نام کے بغیر بلوچ سماج، بلوچ سیاست، بلوچ مزاحمت، بلوچی و براہوئی ادب و شاعری نا مکمل نظر آتے ہیں۔ اُستاد اسلم نے ایک ایسے وقت میں نیم مردہ بلوچ سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جب دشمن ریاست اسکی فوج اسکے پارلیمانی کٹھ پتلیوں سمیت مسلح گروہ اس خوش فہمی میں تھے بلوچ سیاست اور بلوچ مزاحمت ختم ہوچکی ہے۔ فکر آجوئی اب زندہ نہیں رہا۔
لیکن پھر بولان کے پہاڑی شہزادے نے وہ عمل سرانجام دیا جس کی مثال دنیا کے ہرکونے میں وطن پرست سرمچار اس طرح سے دیا کرینگے کہ جب گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی تو سب سے پہلے کس طرح بلوچ قوم کے عظیم رہنما اسلم بلوچ اور وطن مادر لمہ یاسمین بلوچ نے اپنے ہی لخت جگر کو سر پر کفن بندھوا کر بلوچستان کے بیرک میں لپیٹ کر وطن پر قربان کردیا۔
شہید جنرل اسلم بلوچ نہ صرف ایک مکمل گوریلہ اور جنگی مہارت رکھنے والے کمانڈر تھے بلکہ وہ حقیقی حالات کے مطابق جنگی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے کا بھی بہترین ہنر جانتے تھے۔ آج انہی کی بیباکی، دلیری اور بہترین حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے کہ چائنا اور پاکستان اپنے اکنامک کاریڈور سے زیادہ اپنی سیکیورٹی کی خاطر پریشان ہیں ۔
یقیناً جنرل اسلم اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ دشمن کبھی بھی کہیں بھی حملہ آور ہوسکتا ہے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ اگر وہ اپنے عمل کو تھوڑا سست روی کا شکار کرکے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں تو انکی زندگی کو کم خطرات لاحق ہونگے، لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ زندگی اور موت دونوں ہی ایسی ہونی چائیں جو نہ صرف مثالی ہوں بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر باعث فخر ہوں اور آنے والی نسلیں بھی اسی منزل کے مسافر بن کر دشمن ریاست پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں۔
یقیناً شہید جنرل اسلم بلوچ اپنے ساتھیوں کمانڈر کریم مری ،تاج محمد مری،اختر بلوچ، سنگت امان اللہ اور سنگت بابر مجید کے ہمراہ ۲۵ دسمبر کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے جو کہ کسی صدمے سے کم نہیں آج بھی کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی پیغام یا ویڈیو شائع ہوگا جس میں ایک روشن فکر اور سالار عظیم اپنے بندوق کے ہمراہ کسی پہاڑی پر بیٹھ کر دشمن ریاست کو نہ صرف لککاریں گے بلکہ اپنے ہر ایک پیغام کو سچ ثابت کرکے دکھایئنگے۔
شہید جنرل اسلم بلوچ اپنی جدوجہد اور شہادت سے اپنے سوچ کو اس طرح بلوچ سماج میں پختہ کر گئے ہیں کہ آج بلوچستان کے ہر ایک کوچہ میں فکر اسلم لوگوں کی رہنمائی کررہا ہے۔ کہیں کسی سرمچار کی صورت میں، تو کہیں کسی قلم کار کی شکل میں تو کہیں ایک سیاسی کارکن کی صورت میں فکر اسلم بلوچ عوام میں پھیلتا جارہا ہے۔
دشمن ریاست نے جنرل اسلم اور ساتھیوں کو شہید کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دشمن آج بھی ہم سے طاقتور ہے لیکن آج جنرل اسلم کے ساتھیوں، دوستوں، شاگردوں اور دوزواہوں پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ایک محاذ پر دشمن کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے عمل میں زیادہ میں زیادہ تیزی پیدا کرتے ہوئے دشمن کو سرزمین سے باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے بلوچ سرزمین کو غلامی کی چنگل سے آزاد کرکے ایک بہتر پرامن اور خوشحال بلوچستان کے قیام کو یقینی بنائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔