بابو عبدالکریم شورش کو بھول گئے – محمد عمران لہڑی

654

بابو عبدالکریم شورش کو بھول گئے

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

میں انتہائی نادم ہوں اپنی زندہ وجود پر. ایک ایسی قوم جس کے بہادری کے مثال دوسرے اقوام دیا کرتے تھے لیکن آج خود اس قوم کی بزدلی کے دن آئے ہیں. کون کہتا تھا یہ قوم اپنی ننگ و ناموس.پر مَر مٹتا ہے. کہاں گیا وہ مِر مٹنا جوکہ آج اس قوم کی بہنوں اور ماؤں کو اغیار اٹھاکر ان کی عزت تار تار کررہا ہے. کیوں کوئی نہیں مرا… کیوں کوئی نہیں مٹا… ہاں اگر مٹا ہے تو وہ اس قوم کی غیرت مٹا ہے…. اگر مٹا ہے وہ اس قوم کی حیا مٹ گئی ہے. اب اس قوم کی ضمیر مر گیا ہے. اب بہادری کے قصے پارینہ بن چکے ہیں. اب شاید کوئی بوڑھی دادی اماں ہمیں نواب محراب خان, شہید علی دوست, آغا عبدالکریم, نوروز خان, اکبر خان اور ہزاروں بہادر بلوچ نرمزاروں کے قصے راتوں کو نیند کے آنے تک سنائے، لیکن جب نیند آئے ہم پھر قصے کے مکمل ہونے تک اپنے آنکھوں کو تو کھلا نہیں رکھ سکتے. پھر چلے جائیں گے خواب غفلت میں.. کیا ہوا ؟ کون کیا ؟ کیوں کیا؟ کچھ پتہ نہیں۔۔۔

آج تھوڑا بہت بابو عبدالکریم شورش سے واقف ہوں لیکن اس کے نقش قدم پر چلنے سے پاؤں لڑکھڑاتے ہیں. مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ یہ قوم ایک ایسی خوش قسمت قوم ہے جس کو اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے بابو عبدالکریم شورش جیسے بیباک, نڈر باہمت و بلند حوصلوں والا لیڈر عطا کیا ہے. لیکن کاش بابو کو یہ پتہ ہوتا کہ اس کے جانے کے 23 سال بعد اس قوم کی نوجوان کیسے خواب خرگوش میں پڑے رہیں گے اور کیسے اس کے سیاسی تاریخ کو بے دردی اور لاپرواہی سے بھول جائیں گے تو شاید وہ کسی اور قوم کے درمیان جاکر سیاست کرتا، قربانی دیتا، مصائب اور مشکلات سہتا، ہتھکڑی بیڑی پہنتا، زندان کی قید تنہائی برداشت کرتا. طاقتور سامراجی قوتوں سے نبرد ہونے کی ہمت دیتا، سر کٹانے کا درس دیتا، ننگ و ناموس کی خاطر جان دینے کا فلسفہ بیان کرتا، سر جکھانے کے خطرناک اثرات بیان کرتا، یہاں تک کہتا سر جھکانے کے مترادف ہے اپنے وجود کو اپنے ہاتھوں سے تیز دھار آلے سے قتل کرنا.

بابو عبدالکریم شورش نے طاقتور سامراج انگریز سے صرف اس لیے پنگا لیا تاکہ اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے اور اپنے آنے والی نسل کو یہ پیغام دے کہ طاقت کے آگے جھکنا نہیں بلکہ سینہ تان کر کھڑا ہونا ہے. بابو عبدالکریم شورش نے اپنے رفقاء کے ساتھ انگریز سامراج کو ہر محاذ پر شکست دی. سیاست کے میدان میں انگریز اور اس کے دلال کو یہ باور کرایا کہ بلوچ قوم خود اپنی سرزمین کا وارث ہے. کسی دوسرے قابض کو کوئی حق حاصل نہیں اس قوم پر حکمرانی کرے. اس سرزمین کی سارے معدنیات کا مالک بلوچ قوم ہے. یاد رہے بلوچ قوم کی ان بہادر سپوتوں نے ان معدنیات کے لالچ میں قابض طاقتور سامراجی قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ قومی تشخص, ننگ و ناموس اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ, ہر دور میں طاقتور سے طاقتور قوتوں کا مقابلہ کیا ہے.

بابو عبدالکریم شورش ایک زندہ قوم کی حیثیت سے انگریز سامراج کے تمام تر ظلم و ستم, ہتھکڑی بیڑی, قید و پابند کو خندہ پیشانی سے برداشت کرکے ایک تاریخ رقم کی. صرف انگریز کے ظلم و ستم کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ آمر ضیاء اور ایوب کے دور کے ناجائز پابندیوں, خونی آپریشن, قتل و غارت گیری کو بھی برداشت کیا لیکن کبھی سر نہیں جھکایا. ان ہی کی قربانی اور جہد مسلسل سے بلوچ قوم کی ثقافت, زبان اور تاریخ برقرار اور زندہ ہے.

آج اندیشہ اس بات کی ہے اگر آج اس قوم کے نوجوان خواب غفلت میں رہ کر اپنے مقصد سے دور ہٹ گئے, زاتی مسائل کے کشمکش میں مبتلا ہوکر قومیت اور وطنیت کو بھول کر زندگی بسر کی, اپنے ان ہستیوں کے کارناموں, جہد, قربانی اور مشکلات و مصائب سے بھری تاریخ کو فراموش کرکے آنکھیں بند کرکے سُو گئے تو پھر اس قوم کی شناخت, تاریخ, زبان اور ثقافت کو مسخ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا. پھر تاریخ نویس اپنے آقاؤں کی خوش نودی کے لیے ایک من گھڑت تاریخ لکھے گا. پھر دشمن اس قوم کی مسخ شدہ تاریخ کو عام کرے گا بلکہ اسی طرح جس طرح اس قوم کے پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کے مسخ شدہ لاش ملے. پھر تاریخ کو سیاہ کوٹھڑیوں میں ڈال کر اس پر ٹارچر نما قلم سے اذیت دیکر اس قوم کے ان عظیم لیڈران کو چور, ڈاکو, غدار لکھا جائے گا. ثقافت کو ایک نمود و نمائش کے طور پر پیش کیا جائے گا. زبان کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے میوزیم کا زبان قرار دیا جائے گا. اس قوم کو مختلف قبیلوں, ذات پات میں بانٹ کر یک قومی تصور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ سے غائب کردیا جائے گا. ایک سرزمین کو مختلف ممالک میں تقسیم کرکے اس کی 11 ہزار سال کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کیا جائے گا…. پھر سو سال کے بعد ایک نسل شعور کو سنبھال کر اپنی تاریخ کو پڑھنے کی کوشش کرے گا….. لیکن پھر اسے ایک قوم کی تاریخ نہیں ملی گی. ایک سرزمین کے مالک کے طور پر تاریخ پڑھنے کو نہیں ملے گا. پھر وہ بہادری کے قصے, وہ قربانی کے فلسفے, وہ مادر وطن کے حفاظت میں جلاوطنی, زندان کے ظلم و ستم, ہھتکڑی, پھانسی کے پھندے سب کچھ قصہ پارینہ بن جائیں گے.

اے کاش آج بابو عندالکریم شورش زندہ ہوتا، اپنے قوم کے نوجوانوں کی حالت دیکھ کر انگشت بدندان رہ جاتا. آج اس قوم کی غیرت اتنی گر گئی کہ ان کے ماؤں, بہنوں کو اغیار اٹھا کر ان کی عزت تار تار کررہے ہیں لیکن اس قوم کے نوجوان اعلٰی عہدوں, نوکری اور عیاشیوں سے بھری زندگی کے تلاش میں سرگرداں دنداناتے پھر رہے ہیں. ہے نہ غفلت, بے ضمیری اور لاپرواہی کی بات.

ابھی تو بابو شورش کو گزرے صرف 23 سال ہوگئے ہیں. آج سے 23 سال پہلے بابو شورش اس سرزمین پہ موجود تھا. حق کا علم بلند کیا تھا. ہر محاذ پر اس قوم کی حقوق کا جنگ لڑرہا تھا. صرف بلوچ قوم کی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ان انسانوں کے لیے آواز حق بلند کرتا جو ظالموں, سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ذلیل اور بنیادی حقوق سے محروم تھے. دنیا کے مزدور, کسان اور کچلے ہوئے طبقے کے حقوق حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا تھا.

بابو شورش تو 14 دسمبر 1986 کو جسمانی طور پر اس قوم سے رخصت کرکے ابد کی نیند سو گئے. اس کی سوچ, فکر, نظریہ, ہمت, حوصلے اور قومیت و وطنیت کا جذبہ اس قوم کو وراثت میں دی. لیکن آج اس قوم کی غفلت, لاپرواہی, بزدلی کو دیکھ کر کوئی آسانی سے یہ اندازہ کرسکے گا کہ وہ دن دور نہیں جب بابو شورش کا نظریہ, افکار بھی اس قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کرکے چلے نہ جائیں. کیونکہ کل اس عظیم ہستی کے وفات کا دن تھا. یقیناً اس دن سرزمین بلوچستان اپنے ایک عظیم لیڈر سے محروم ہوگیا تھا. لیکن کسی کو یاد تک نہیں آیا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔