اسلم ۔ علیزہ بلوچ

325

اسلم

تحریر: علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موت کی آمد ہمارے لیے بڑی تکلیف دہ ہے. ہم کسی صورت اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے. چاہے زندگی ہمارے لیے کتنی ہی بوجھ کیوں نہ بن چکی ہو. بے شک ہم مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں مگر ہم میں سے کچھ لوگ مرکر بھی نہیں مرتے. استاد اسلم شہید ہوئے ہیں مگر وہ اب بھی ہر اس جگہ، ہر اس دل میں، ہر اس سوچ اور ہر اس فکر میں موجود ہے. جو وطن کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں، جو ذاتی فکر و سوچ سے بالاتر ہے. زندہ ہونے کا جتنا ثبوت انہوں نے زندہ رہ کر دیا اتنا ہی شہید ہوکر۔ موت ایسے لوگوں سے ملتی ہے، تو دم سادھ لیتی ہے۔

مگر ایسے بھی کچھ لوگ ہیں، جو زندہ ہوتے ہوئے مر چکے ہوتے ہیں. ایسی بے شمار لاشیں ہمیں گلیوں میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں. زندگی سے محبت بہت ہی خوفناک چیز ہے، ان میں سے کوئی لاش بھی دفن ہونے کے لیے تیار نہیں.

دسمبر ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی دل کو گرما دینے والی یادیں لئے چلا آتا ہے۔ سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناطے دسمبر ایک طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے تو دوسری جانب نئے آنے والے سال کی اُمید بھی۔

دسمبر کے یہ آخری چند دن کچھ زیادہ ہی گراں گذرتی ہیں. جیسے جیسے 25 دسمبر کا دن نزدیک آرہا تھا، کچھ اذیت ناک یادیں دل کو چیر سی رہی تھیں، کیسے بھلا بھول سکتے ہیں کہ اس دسمبر نے ہم سے ایک مہربان شفیق باپ کا سایہ چھینا. دل پر بہت ہی گہرے گھاؤ لگائے.

پہلے شعر و غزل میں دسمبر کی بے رحمی کا صرف پڑھا کرتے تھے. اب جاکے محسوس ہوتا ہے کہ دسمبر تو واقعی بہت بے رحم ہے.

“اسلم” اس ایک نام میں کیا کچھ نہیں چھپاہے؟ مہر و محبت، سچائی و خلوص، رہنما، رہبر، شفیق باپ، ہمدرد دوست، کہاں سے چن کر لاؤں میں وہ الفاظ جو مکمل طور پر اسلم کو بیان کر سکیں؟ یقیناً زبان گنگ پڑ جاتی ہے، الفاظ اور تعریفیں ختم ہو جائیں گی مگر اس ایک نام کو بیان نہیں کر پائیں گے.

ایک ایسا انسان جس نے وطن سے محبت اور عشق میں قربانی کی انتہا کردی. سچے معنوں میں وطن پر مر مٹنے اور کچھ بھی کرنے کے لیئے ایسی مثالیں قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی.

ایک ایسے وقت میں اپنے لخت جگر کی خواہش پورا کرنا کہ جس وقت قوم مایوسی کی طرف جا رہی تھی اپنے لیڈر ہونے کا فرض ادا کرتے ہوئے استاد نے اپنے اصول پسندانہ سیاست کے اصولوں کی قندیل کو روشن کیا.

اسلم کی عظیم شخصیت کا سب سے اہم پہلو اپنے مقصد کے ساتھ خلوص اور سچا لگاؤ تھا۔ جب تک تا حیات رہے تب تک مادر وطن کے لئے لڑتے رہے. یہاں تک کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی اپنے کام کو مخلصی سے سر انجام دیتے رہے.

محب وطنی اور انصاف پسندی میں استاد کا کردار آنے والے ہر نسل کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے. آپ کے انہی اوصاف کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ آپ کا مرتبہ بلند رہے گا.

اسلم کے کاروان کو آگے اس طرح بڑھانا ہے کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ اس نے اسلم کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کرکے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے. اسلم آج بھی زندہ ہے. ہم سب کی سوچ و فکر میں. اسلم ہر اس انسان میں موجود ہے جو اپنے وطن سے اور اپنے ہم وطنوں سے بے حد محبت کرتا ہے. اسلم ہر اس والد میں موجود ہے جو اپنے بچوں کو خوشی خوشی وطن پہ قربان کرنے کے لیے بھیجتا ہے. اسلم صرف ایک جسم نہیں ایک سوچ ایک نظریہ ہے اور ایک نظریہ کبھی مٹ نہیں سکتا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں