اسلم ہارے بھی نہیں۔۔۔ – برزکوہی

667

اسلم ہارے بھی نہیں۔۔۔

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ عالم میں شخصیات کا تقابل و تشبیہہ ایک ناگزیر عمل ہے، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ ہستیاں اپنے کردار سے انسانی صلاحیتوں و کامیابی کے پیمانوں کو اتنا بلند کردیتے ہیں کہ انکی شخصیت خود ایک پیمانہ بن جاتا ہے اور آنے والے ہر نابغہ روزگار کی صلاحیتوں کا اداراک اسی پیمانے کے تقابل سے ہوتا ہے، تب تک جب تک کہ کوئی اور آکر اپنے کردار و صلاحیت کی اونچائی سے ان پیمانوں کو ہی نا توڑدے اور پھر خود وہی پیمانہ بن جائے۔

میں بلوچ لکھاریوں و سیاسی کیڈر میں یہ رجحان بدرجہ اتم دیکھتا ہوں کہ وہ متعلقہ گروہی یا قومی رہبروں کا تقابل، عالمگیر انقلابی رہنماؤں سے کرکے خود کی تشفی کرتے ہیں۔ لاشعوری طور پر یہ عمل از خود متعلقہ لیڈر کے قد کا پیمائش کرنا ہوتا ہے، اسی لیئے یہ رجحان بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک ہی متعلقہ لیڈر کا چار پانچ عالمی انقلابی رہنماؤں سے تقابل پیش کیا جاتا ہے کہ پیمائش کہیں پورا اترے۔

اس مضمون کو ضبطِ تحریر میں لانے سے پہلے یہی روایتی خیال لاشعوری طور پر مجھے آن گھیرتا ہے کہ میں استاد اسلم بلوچ کے کاٹھی کا تقابل کس سے کروں، کس پیمانے پر وہ پورا اترے گا؟ لیکن سوچتا ہوں کہ میں کیوں انکا تقابل پیش کروں بسمارک، جنرل گیاپ، ہوچی منہ، ڈاکٹر چے، جیولیس فیوچک وغیرہ سے، جب اسلم بلوچ خود ان پیمانہ شکن ہستیوں میں سے ایک ہیں، جو اپنے کردار و صلاحیتوں کی بالاد سے اب خود ایک پیمانہ بن چکے ہیں۔ بلوچ کی اس دھرتی پر اب نسلوں تک جب بھی کوئی شجاعت، قیادت، ایثار، مخلصی، ذہانت اور قربانی کا دم بھرے گا، تو اسے اسلم بلوچ کے پیمانے سے گذرنا پڑے گا۔ جنرل نے اب یہ پیمانے اتنے سخت کردیئے ہیں کہ اگر کوئی رہبری کا دعویٰ کریگا تو پھر اسے اپنے کردار کا تقابل اسلم سے کرنا پڑیگا، شاید اب نسلوں تک بلوچ سماج میں وہ رہنما ہی تصور نا ہو، جسکے خلوص، قربانی اور سچائی کی کاٹھی اسلم سے میل نا کھائے۔ جنرل اسلم نے جاتے جاتے رہنمائی کے تقاضے بھی بہت سخت کردیئے۔

آج اگر کوئی یہ کہنے کی سکت رکھے کہ بلوچ قوم یا تاریخ میں استاد اسلم وہ کماحقہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے، تو پھروہ تاریخ اور تاریخی کرداروں سے نا بلد انسان ہوگا۔ بالکل اسلم کاسترو و ڈاکٹر چی نہیں بن سکا لیکن اسلم بلوچ، اسلم بن گیا۔ جو اتنا ہی اہم، عظیم اور عالمگیر ہے جتنے باقی عالمی رہبران۔

عصر حاضر میں بلوچ قوم میں اعلیٰ پائے کے شاعر و ادیب، دانشور، تاریخ دان، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، صحافی، لکھاری، سیاستدان وغیرہ ضرور دستیاب ہیں لیکن فن جنگ پر مکمل عبور رکھنے والے ماہر سپہ سالار یعنی بہترین مہارت رکھنے والے استاد اسلم جیسے کتنے کمانڈر موجود ہیں؟ بالکل اس امر سے انکار نہیں کہ آج بھی بہادری، ہمت، جوش و جذبہ اور خلوص کے ساتھ بے شمار مہارت رکھنے والے جنگی دوست موجود ہیں اور آگے بھی پیدا ہونگے لیکن موجودہ جنگ میں اسلم بلوچ کے جنگی محاذ پر جنگ کے حوالے سے ایک منفرد و مثالی کردار رہا ہے۔

اسلم بلوچ کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے بلکہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، اس کی شخصیت کے ہر جہت سے واقفیت شاید ہمارے بس کی بات نہ ہو کیونکہ کسی بہترین کمانڈر کو کوئی بہترین کمانڈر ہی پہچان سکتا ہے، جس طرح کسی دانشور کو دانشور ہی جانتا ہے، کسی بہترین ڈاکٹر کو بہترین ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے، اب مجھ کتنا مہارت اور جانکاری ہے کہ میں اسلم کی صلاحیتوں کی صحیح پہچان کرکے پھر انکو صیح معنوں میں بیان و تشریح کروں؟ شاید انتہائی مشکل ہوگا البتہ اگر کوئی کہتا ہے لیڈر و کمانڈر کو سچا ہونا چاہیئے تو اسلم ایک سچا انسان تھا، اگر کوئی کہے لیڈر و کمانڈر میں جرت و بہادری آخری حد تک ہونا چاہیئے تو اسلم بہادری کا دوسرا نام تھا، اگر کوئی کہتا ہے، لیڈر و کمانڈر ہر قربانی کی خاطر سب سے پہلے خود پیش پیش ہو یہ تو اسلم کی بنیادی اور اولین خصوصیت تھی۔

اس مستند حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ دشمن کے جبر و تشدد، بربریت، سازشوں، خوف و ہراس، لالچ و مراعات کی بوچھاڑ، خاص طور پر آزادی پسندوں کے درمیان غیر نظریاتی اختلافات، تضادات اور آپسی رسہ کشی کے نتیجے میں بلوچ سماج و بلوچ قوم، خصوصاً نوجوانوں میں ایک بددلی و مایوسی اور خوف و تذذب کا رجحان جنم لے چکا تھا، جو بلوچ تحریک کے لیے ایک انتہائی خطرناک بھنور تھا، اس بھنور سے تحریک کو نکال کر درست سمت میں روانہ کرنا، ایک بار پھر بلوچ سماج اور بلوچ قوم میں حوصلہ و امید، جوش و جذبہ پیدا کرنا اور مایوسی و خوف کو کسی نا کسی طرح ختم کرنے میں استاد اسلم کا بہت بڑا کردار ہے۔

کیا کسی لیڈر کے عظمت و کامیابی کا تعین اسکے حتمی فتح سے ہوتا ہے؟ نہیں عظمت و کامیابی کا پیمانہ، تعینِ حقیقی راہ ہے، اسکے قیادت و فیصلوں کے اثرات ہیں، اسکے وہ غیر معمولی فیصلے ہیں جو بالآخر قافلے کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں، چاہے وہ مزید امیر کارواں نا رہے، لیکن اسکے تعلیمات اندھیری راتوں میں بھی ستارے کی مانند کھوئے ہوئے قافلے کوراہ منزل دِکھاتے رہتے ہیں۔ گوکہ اسلم بحیثیت لیڈر، بحثیت ایک کمانڈر ہمیں ہماری قومی منزل قومی آزادی تک خود جسمانی طور پر سر نہیں کرسکا، اسلم اپنے زندگی میں جیتا نہیں، لیکن اس نے شکست بھی نہیں کھایا، ہر جنگ جیتنے کے لیئے نہیں ہوتا بلکہ جنگ جاری رکھنے اور ہارنے سے بچنے کی خاطر بھی جنگ کرنا ہوتا ہے، اسلم تاریخ کے انہی لیڈروں میں شمار ہوتا ہے۔

کامیابی کو سامنے دیکھ کر لڑنے والے رہنماؤں سے یقیناً وہ رہنما زیادہ منفرد مقام رکھتے ہیں جو یہ جاننے کے باوجود لڑتے ہیں کہ شاید وہ کبھی کامیابی کو اپنی زندگی میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ انگریز کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن خان محراب خان اپنے چالیس ساتھیوں کے ہمراہ دنیا کے اس عظیم سپر پاور سے ٹکراتا ہے کیونکہ وہ یہ جنگ جیتنے کیلئے نہیں لڑتا، بلکہ شروع کرنے کیلئے لڑتا ہے۔ کیا اسکی موت اسکی ناکامی ہے یا جس مزاحمت کا آغاز اس نے کیا وہ اسکی کامیابی؟

اسپارٹیکس جانتا تھا کہ جب تک سلطنت روم قائم ہے، تب تک اسکیلئے غلامی کو مکمل شکست دیکر ایک آزاد انسان کی طرح رہنا ممکن نہیں، اور وہ جانتا تھا کہ وہ چند غلاموں کے ہمراہ روم کی حشمت کو نہیں ڈھاسکتے، لیکن وہ پھر بھی غلامی کے صفائے کے اس جنگ کا آغاز کرتے ہیں، جسے صدیوں بعد انجام تک مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو پہنچانا ہوتا ہے۔

چنگھاڑتی ہوئی رانی لکشمی بائی ہو، یا ” مرسو مرسو سندھ نا ڈیسو” للکارتا ہوش محمد شیدی یا پھر دمِ آخر تا جوانمردی سے لڑتا ٹیپو سلطان سب جانتے تھے کہ تاج برطانیہ سے ٹکر کا مطلب انکی موت ہے، اور وہ اپنی زندگی میں نہیں جیت سکتے تھے لیکن وہ جیتنے کیلئے نہیں جنگ جاری رکھنے کیلئے، جنگ نسلوں کو منتقل کرنے کیلئے لڑرہے تھے۔

بھگت سنگھ پھانسی کے پھندے کو چوم کر اور ڈاکٹر چی بولیویا کے جنگل میں یہ چیخ کر کہ ” بزدلوں گولی چلاؤ، تم ایک جسم کو ختم کرسکتے ہو، فکر کو نہیں۔” اپنی فکر، اپنی جنگ منتقل کررہے تھے۔

گوکہ حتمی مقصد کامیابی پر منتج ہونا ہی ہوتا ہے، لیکن اسکی ہر لڑائی صرف جیتنے کیلئے نہیں ہوتی، بہت سی جنگیں اس فکر و نظریئے کو زندہ رکھنے، اس تسلسل کو برقرار رکھنے اور اگلے نسل تک منتقل کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ اگر جنرل اسلم کے کردار کو جانچنا ہو تو یہ پیمانہ درست نہیں ہوگا کہ دیکھا جائے کہ انہوں نے آزادی لیکر دی یا نہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنی زندگی میں آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھیں گے، لیکن پھر بھی وہ آخری دم تک لڑتے ہیں، اپنے جوانسال بیٹے کو قربان گاہ خود بھیجتے ہیں اور بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دیتے ہیں۔ وہ آزادی کا جھنڈا نہیں گاڑھ سکے، لیکن وہ آزادی کے نظریئے کو سیسہ پلائی دیوار بنانے میں کامیاب ہوئے، مایوسیوں کے بادل چھٹوانے میں کامیاب ہوئے، اس جنگ کے تسلسل کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے، اور اس جنگ کو اگلی پیڑی تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے، استاد اسلم جیتے نہیں لیکن وہ سب زیادہ کامیاب رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔