استاد اسلم بلوچ کا آخری خطاب – نادر بلوچ

1068

استاد اسلم بلوچ اور شہید ساتھیوں کو استاد اسلم کے آخری خطاب کے ذریعہ خراج عقیدت

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

استادوں کے استاد شہید اسلم بلوچ اور انکی ساتھیوں کے یوم شہادت 25 دسمبر کے حوالے سے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے میرے الفاظ انتہائی کم تھے اس لیے ان عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت و سلام انکو انکے ہی پیغام سے پیش کرنے کا خیال آیا تاکہ بلوچ قومی وحدت کے دشمنوں کو یہ پیغام دی جاسکے کہ سوچ اور نظریہ کھبی مرتی نہیں، آزادی کی روشنی کو اندھیروں سے روکنا ممکن نہیں۔ اسلم بلوچ آج بھی زندہ ہے انکا فکر و فلسفہ آزادی ، ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے۔

قارئین آپ کا زیادہ وقت لینے سے اجتناب کروں گا، استاد اسلم بلوچ کی اس پر عزم و پرجوش، پر فکر خطاب پر دوسری مضمون میں کوشش کروں گا کہ تحریر کے ذریعہ اس پیغام کو سمجھنے کیلئے اسکا خلاصے پر غور کریں اور وطن کے ان غیور و غیرت مند فرزندوں کو خراج عقیدت پیش کرسکوں۔

میرے قوم کے محترم بزرگوں، ماں اور بہنوں، ہمارے نوجوان جہد کار ساتھیوں، آپ لوگوں کے سلامتی اور فکر کی پختگی کے لیے دعا گو ہوں، اور آپ لوگوں کو سلام کرتا ہوں، اس سوچ کے ساتھ آج میں آپ لوگوں کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں، آج ہماری قوم بہت خراب حالت سے گزر رہی ہے،آپ خود ان حالات کو دیکھ رہے ہیں،آج ستر سال سے ایک باہر کا دشمن آیا ہے جس نے ہم سے ہمارا وطن لے لیا ہے۔ ہمارے ترقی کی جو بھی راہیں ہیں وہ چاہے علم کے راہیں ہوں ، معاشی ہوں، یا ثقافتی اقدار ہوں وہ سب اس دشمن نے روک رکھی ہیں، وہ ہمارے اوپر قابض ہے، اس نے سب قدرتی خزانوں پر قبضہ کرلیا ہے،قدرتی وسائل کو لوٹ کر لے جارہے ہیں ، ہماری قوم ایک بدحالی کی زندگی گزار رہی ہے،یہ جنگ جس دن شروع ہوئی ہے،یہ ہماری شروع کی ہوئی جنگ نہیں ، یہ جنگ اس نے ہم پر مسلط کی ہے۔ جس دن یہ قلات میں داخل ہوا اس دن اسکے ہاتھوں میں بندوق ، توپ اور ٹھینک تھے، اس نے اس سے ہمیں مارا، ہم اس وقت سے اپنے عوام اور قوم کو بچاتے آرہے ہیں، آج بھی ہم یہی کر رہے ہیں، آج ہماری جہد پر ایک ایسا وقت آیا ہے کہ ہمیں سخت فیصلے لینے پڑھ رہے ہیں،آج ہمارے نوجوان اس مقصد کے لیے تیار ہوئے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان فیصلوں کے بغیر آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں،آج دشمن پروپیگنڈہ بھی بہت زیادہ کررہی ہے آج دشمن ہمارے عوام کو گمراہ کررہی ہے،وہ ہمارے جہد کو دوسرا رنگ دے رہا ہے کبھی کسی ایک ملک کے ساتھ تو کبھی دوسرے ملک کے ساتھ جوڑ رہی ہے، بہت باتیں ہورہی ہیں آپ نے خود سنی ہونگی،ایک چھوٹی وضاحت میں یہاں کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے جانباز اور سرباز کراچی میں شہید ہوگئے، اسکا ایک مقصد تھا کہ ہم چین کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ وطن ہمارا ہے یہ سرزمین ہماری ہے، ہم اسکے مالک ہیں،ہم کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے، ہمارے پاس جتنی بھی طاقت ہے اس سے زیادہ ہم اپنی زور لگائیں  گے،اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ یہ وطن ہمارا ہے اس میں ہماری مرضی و منشا کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا،کوئی زور آور ہے تو اسکے لیے راستہ کھلی ہے، آج وہ طاقت دیکھا رہے ہیں ہمارے علاقوں میں داخل ہوئے ہیں، گوادر کی حالت آپکے سامنے ہے،باقی وطن کی حالت آپکے سامنے ہے،آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ماں بہنیں سڑکوں پر ہیں،ہمارے نوجوان پہاڑوں میں ہیں،وہ اسکے خلاف جہد کررہے ہیں،دشمن پر حملہ کا مقصد یہی تھا کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ یہ دھرتی یہ وطن ہمارا ہے۔

یہاں اگر کوئی آئے گا تو وہ ہماری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا، کوئی زور لگائے گا تو اسکو طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا،طاقت کے استعمال سے ایک بات نکلتی ہے وہ یہی ہے کہ ساتھی جس مقصد کے لیے گئے جس مقصد کیلئے اپنی جانیں قربان کی وہ پورا مقصد دنیا تک پہنچ گیا،یہ بات آج پوری دنیا تک پہنچ گئی،پوری دنیا اسکو سن رہی ہے،غور کررہے ہیں اسکو دیکھ رہے ہیں،اب اس بات کو آگے لے جانا ہے کہ ہم جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔آج ہم یہ کہتے ہیں، کہ ہمارے وہ لوگ جو اس جہد کے ساتھ نہیں، اس جہد سے دور ہیں، وہ کم سے کم اتنا کریں کہ اس جہد کو جٹھلانے کی کوشش نہ کریں،اس جہد کو غلط رنگ نہ دیں، وہ اگر فکری طور پر ہمارا ساتھ دیں تو یہ انکی قومی فرض ہے یہ حمایت سب سے کمزور حالت ہوگی،یہ ہر بلوچ پر فرض ہے کہ وہ اس جہد کے ساتھ شامل ہو جائے اس جہد کا ساتھ دیں اور جو بوجھ وہ اٹھا سکتا ہے، وہ اسے اٹھائے،یہ ہر نوجوان پر فرض ہے، ہر ماں اور بہن کا فرض ہے ہر بزرگ کا فرض ہے،اگر کوئی اس کام کو نہیں کرسکتا، اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، ذہنی حوالہ سے وہ اسکے لیے تیار نہیں، کم سے کم وہ اس جہد سے خود کو الگ نہ رکھے اس جہد کیلئے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالے، وہ اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ وہ اس جہد اور جنگ کی مخالفوں کے سامنے کھڑا رہے، یہ اسکے فرض کا ایک بڑا حصہ پورا کرئے گا کہ وہ فرض ادا ہو جائے،اس وقت اگر ہم ایک بات کو سمجھ جاہیں، کہ ہماری عوام ، ہمارے چھوٹے بڑے اس بات کو سمجھ جاہیں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی کہ ہم اپنے دوست اور دشمن کو سمجھ جائیں کہ ہمارا دشمن کون ہے، ہم جہد نہیں کرسکتے ہم جہد کاروں کے ساتھ ہم قدم نہیں ہوسکتے، اس قومی جہد میں اپنا حصہ ڈال نہیں سکتے، ایسے حالات نہیں یا ہم ذہنی طور پر تیار نہیں، یا ہماری سوچ کمزور ہے لیکن ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اپنے دوست اور دشمن کو جانیں۔اس دشمن سے خود کو دور رکھ سکیں،اگر جہد کاروں سے نزدیک نہیں ہوسکتے تو کم از کم دشمن سے خود کو دور رکھیں،اگر اس ایک فرق کو ہمارے لوگ پہچان گئے بھی تو ہم سمجھیں گے کہ انکا ہماری جہد میں ایک بڑا حصہ شامل ہے،آج ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہندوستان سپورٹ کررہا ہے یا افغانستان سے کمک لے رہے ہیں۔ اگر آج افغانستان یا ہندوستان ہمارے ساتھ مدد کررہے ہوتے تو آج ہماری جدوجہد بلوچستان میں ایک بڑی جنگ کی شکل پیش کرتی، ہماری لڑائی بھی شام کی طرح کی ہوتی، ہماری جنگ بھی عراق کی جنگ کی طرح ہوتی، اس جتنا آگے ہوتا، یہ جنگ ہم اپنی زور پر لڑ رہے ہیں،یہ جنگ ہم اپنی عوام کے زور پر لڑ رہے ہیں ،اس میں ہمارے اپنے قوم کی قوت و طاقت شامل ہے اور اس جنگ کو ہمیں اپنی زور پر آگے لے کر جانا ہے،اگر کوئی ملک اس میں شامل ہونا چائے یہ کوئی خراب بات نہیں، ہم نے اپیل کی ہے جہاں جہاں تک ہماری آواز پہنچی ہے کہ ہماری مدد کرو ہمارے ساتھ شامل ہو جاو،کہ یہ جو بلا ہمارے اوپر نازل ہوا ہے، یہ ستر سالوں سے ہمارے اوپر مسلط ہے، ہمارے لوگوں کو مار رہی ہے ہمارے قومی خزانوں کو لوٹ کر لے گیا ہے،ہمارے بچوں کو لے جارہی ہے،اس نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا ، ہمارے قوم کے سامنے چین اور دوسرے ممالک کو لاکرکھڑا کیا جارہا ہے،یہ ہمیں ختم کرنے کے درپے ہےہمیں یہاں سے ختم کرنا چاہتا ہے  ہماری مدد کریں۔ہمارے ساتھ ہوں تاکہ ہم خود کو ، اپنے عوام اور سرزمین کو بچا سکیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک ایسا ممکن نہیں ہو پارہا، شاہد دنیا کو سمجھ نہیں آرہی یا انکے اپنے مفادات ہیں اس تحریک کو ہم نے اپنے زور پر آگے لے جانا ہے۔اس میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ ہمارے بزگر، مالدار، زمیندار، ہمارے ان ملازم طبقہ کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا جو انکے بس میں ہو، اس جنگ کو آگے لیکر جاہیں،دوستوں کی آواز بنیں، جہد کاروں کی مدد و کمک کریں اپنے قومی فرض جس میں انکا ایک حصہ ہے اس فرض کو ادا کریں۔

میں بہت بہت شکر گزار ہوں ان ماں ، بہنوں کا جو اپنے بیٹوں کو ،شوہر کو ، اپنے بھائیوں کو اس جہد میں شامل کر رہی ہیں، وہ آج جہد کررہے ہیں، انکی دوری کو انکے درد کی تکلیف کو برداشت کررہے ہیں۔ انکو میں سلام پیش کرتا ہوں۔میں دوسری ماں بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی سرزمین کی دفاع، اپنے قوم کی دفاع کیلئے اس حیاء اور غیرت کے راستہ سے نہ روکیں آپکی لوری، آپکی نصیحت یہی ہو کہ مرد وہی ہے جو اپنے وطن کی دفاع کرے، غیرت والا وہی ہے جو اپنے وطن کیلئے کھڑا ہو، حیاء والا وہی ہے جو اپنے قوم اور راج کیلئے مرے، غیرتی کہیں، حیائی کہیں ، قوم کیلئے کہیں وہی ہے جو اپنے دوست اور دشمن کی پہچان رکھے، قومی نفع اور نقصان کو سمجھے، اس پر ثابت قدم ہو، میری ان ماں اور بہنوں سے ہاتھ جوڑ کر التجاء ہے کہ وہ اس جہد میں اپنا حصہ مزید بڑھائیں،زیادہ سے زیادہ اس میں خود بھی شامل ہوں، اور اپنے اولادوں کو بھی شامل کریں۔

بعض لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ یکجاء ہونے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں، ہمارے درمیان غلط فہمی پیدا کررہے ہیں، اس سے دشمن کا کام آسان ہو رہا ہے،اس سے ہمار کام مشکل ہوتا جارہا ہے،میں ہاتھ باندھ کر التجاء کرتا ہوں کہ شعور و آگاہی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہوجاہیں، اپنے جہد میں ساتھ مل کر آگے بڑھیں ، کوئی بندوق نہیں اٹھا سکتا تو ہماری ماہیں بہنیں آج سڑکوں پر نکلی ہیں جو دشمن کے خلاف آواز بلند کررہی ہیں اس جہد میں انکا ساتھ دیں۔انکی آواز کو آگے پہنچاہیں انکو طاقت دیں۔ دشمن کی چال بازیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آج صرف یہ طریقہ نہیں کہ دشمن بندوق لیکر پہاڑوں میں ہمارے سامنا کرے، دشمن پیسہ لیکر اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ہمارے درمیان موجود ہے، ضروری نہیں کہ ایجنٹ صرف مخبر ہو، وہ سیاسی لوگ بھی ہیں جو اپنی نوکری کی خاطر قوم پرستی کے نام کی بات کرتے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کون اس جہد کے خلاف جارہا ہے۔ بعض لوگ پرامن سیاست کی بات کرتے ہیں، بعض جہموری جہد کی بات کرتے ہیں انکو یہ وضاحت دینی ہوگی کہ وہ اس جہد کو کریں لیکن وہ جہد بلوچ قومی تحریک سے متصادم نہ ہو، انکا جہد ہماری شہیدوں کے خلاف نہ جائے، وہ ہماری شہیدوں کے قربانیوں کے خلاف نہ جائے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے میرے خیال میں زیادہ سوچ کی ضرورت نہیں۔ یہ بڑی تحقیق نہیں مانگتی، یہ ایک آسان کام ہے، آج بہت سے لوگ آتے ہیں ہماری ماں بہنوں کے ساتھ ہوتے ہیں،یہ ایک اچھا عمل ہے کہ کوئی آتا ہے اور اس دکھ درد میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن وہی پر یہ آواز لگاتا ہے کہ پہاڑوں کی جہد ترک کرو، بندق پھینک دو، اور آجاو، یہ بات وضاعت چاہتی ہے کہ کیا بلوچ بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر پہلے گیا ہے؟ یا پہلی بار جب دشمن قلات پر حملہ آور ہوا اس میں احترام، ہماری قومی حیثیت کو نہ تسلیم کرنا تھا، اسی دن سے اس نے اپنی چالبازیوں، جھوٹ ، بندوق، بم توپوں کے ساتھ قلات پر حملہ آور ہوا، زہری پر حملہ ہوا، کاہان پر حملہ کیا، آج ہر بلوچ کے گھر پر حملہ آور ہے۔ دشمن کے ہاتھ میں بندوق ہے ، دشمن کے ہاتھ میں توپ ہے، وہ جنگ کے لیے آگے آرہا ہے تو ہمارے لیے کون سا راستہ بچتا ہے؟ ہم کون سے طریقے سے آگے جائیں؟ ہمیں کیا کرنا پڑے گا ؟ ہاتھ جوڑنا پڑے گا؟ پاوں پڑنا پڑے گا؟ میرے خیال میں یہ بہت لوگوں نے کیا بھی ہے،ہمارے جو بھی سیاسی لوگ اور بزرگ جو رہیں ہیں۔وہ سب راستوں پر چل چکے ہیں۔میرے خیال میں وہ نہیں سمجھتا اسکے ہاتھ میں بندوق ہے اور بندوق کو روکنے کیلئے بندوق کی ضرورت ہے۔شاہد بندوق کی بات کہیں نہ کہیں پہنچ جائے۔ آج بلوچ نوجوان اس نہج پر پہنچے ہیں اپنی جانوں کو قربان کررہے ہیں کیونکہ یہ سب حالات کی وجہ سے ہے،آج اگر کوئی باپ اپنے بچے کو جہد کیلئے بھیج  رہا ہے یا باپ اپنے بچوں کو چھوڑ کر اس راستہ پر چل رہا ہے اپنے دو ، دو، تین تین بچوں کو چھوڑ کر اپنی قومی جہد میں شامل ہوکر اپنے قومی مقصد کو حاصل کرنے جارہا ہے ان قربابیوں کا ایک بڑا مقصد ہے اس مقصد کو اچھے سے جاننے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کی حفاظت کرنی ہے،اس مقصد کیلیے جہد کرنی ہے،میرے خیال میں یہ بلوچی فرض ہے۔اسکے لیے ہر کوئی سوچے اسکی وضاحت کریں،آج دوست جہد کررہے ہیں۔ قربانیاں دے رہے ہیں انکی آواز بنیں انکا ساتھ دیں ،اس جہد کے آواز بنیں، بیرون ممالک جتنے بلوچ بیٹھیں ہیں وہ اپنی آواز کو ایک کریں، وہ اس جنگ کی دفاع کریں۔ یہ قومی جہد کی جنگ جو جاری ہے اس جنگ کی دفاع کریں۔ آج ہماری ماہیں ، بہنیں، جو باہر آئی ہیں انکا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ دشمن سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں؟ یا یہ اس آواز کو دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہورہا ہے۔ ہمارے سارے راستہ بند ہیں ہمارے سر پر دشمن بیٹھا ہوا ہے۔ یہاں پر بھی سمجھداری کی ضرورت ہے یہاں بھی جہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال بہت ہیں کہ جو دوست باہر بیٹھے ہیں وہ اپنی اس جنگ سے یا یہاں جو دوست قربانی دے رہے ہیں اپنے جان کو وطن کیلیے اور مقصد کیلیے قربان کررہے ہیں۔ ان دوستوں سے زرا سے خود کو دور رکھ رہے ہیں۔ شاہد باہر کے بین الاقوامی قوانیین کی وجہ سے انکی اپنی مجبوریاں ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس جنگ کی دفاع کرنی چاہیے۔ ہمیں دنیاء کو یہ بتانا اور سمجھانا چاہیے کہ ہمارے جو لوگ اس وقت جنگ لڑ رہے ہیں، یا انکے ہاتھ میں بندوق ہے اسکی ایک وجہ ہے۔ اسکی وجہ پاکستان ہے اسکی وجہ وہ دشمن ہے جن نے پہلی بار جب قلات میں بم ،توپ اور بندوق کے ساتھ آیا تھا۔ وہ دشمن کی وجہ ہے،آج ہمارے پاس بندوق کی گولیاں نہیں ہیں ، وہ سیاسی جماعتیں، یا دوست باہر ہیں یہ میرے خیال میں انکی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھاہیں، اپنے جہد کو منظم کریں، اور اچھے طریقہ سے آگے جاہیں۔ حالات سخت ہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے ہمیں کام کرنا ہے۔ ہمیں بہت منظم ہو ایک مرکز کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے درمیان سوچ کے حساب پر ہم آہنگی ہو۔ اگر پارٹیاں الگ ہیں تو انکو چھوڑیں وہ الگ رہیں اپنی پارٹی کے ساتھ رہ کر جہد کریں۔ ایک دوسرے کی جہد کی مخالفت نہ کریں۔ اور جہد میں جو کمزوری اور خامیاں ہیں ان کمزوریوں اور خامیوں کو ختم کرنے کیلئے ایک ساتھ بیٹھیں۔ کوشش کریں کہ اگر کوئی بھائی ہے۔ایک پارٹی ہے یا کسی دوست میں کوئی کمزوری ہے ان کمزوریوں کو ایک اچھی سوچ کے ساتھ ختم کریں۔ قیادت و رہبری کیلئے ایک دوسرے کے پاوں نہیں کینچھیں  جاہیں، اور یہاں رہنمائی کا اپنا یہ تقاضہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھ کر ایک دوسرے کو آگے لے جاہیں۔ آج بعض باتیں ہیں جو اس ایک پیغام میں نہیں آسکتے، آج دوستوں کی شہادتوں کی وجہ سے آج بلوچ اور بلوچستان کا مسلہ پوری دنیا میں پہنچ گئی ہے۔ آج لوگ جان رہے ہیں کہ بلوچ کون ہیں انکا مقصد کیا ہے۔ دشمن پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ بلوچ ناکام ہوا ہے آج ہم دشمن کے سر پر پہنچ چکے ہیں۔ میرے خیال میں ہمارا جہد آگے جارہا ہے۔ ہمارے جہد کا مقصد لوگ مارنا نہیں ہے ہمارے جہد کا مقصد اپنی دفاع کرنا ہے۔ہماری جہد کا مقصد اپنے قوم کی دفاع ہے۔ ہمارے دفاع کے عمل کے دوران اگر کوئی مارا جاتا ہے اس میں ہمارا قصور یا ارادہ نہیں ہے۔ ہم اپنے قوم کو بچا رہے ہیں ہم اپنے وطن کو بچارہے ہیں اگر کوئی ہمارے دفاع کے دوران کسی حملہ میں مارا جاتا ہے تو میرے خیال میں یہ اخلاقی اور قانونی ہمارا قصور نہیں یہ اسکا قصور ہے۔ چائنا اور پاکستان ہم پر حملہ آور ہیں یہاں بلوچ کی مرضی اور منشاء کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی بلوچ سے ساحل اور وسائل کو لے جاتا ہے بلوچ قوم کے قدرتی خزانوں کی لوٹ مار کرتا ہے تو تم بلوچ قوم اور بلوچ راج کے خلاف ہو،میں ایک بار پوری بلوچ قوم ، نوجوان، بزرگ، ماں اور بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ نوجوان جو آج جہد کررہے ہیں یہ اپنے قوم کی آزادی ، اپنے قوم کی خوشحال زندگی کیلئے جہد کررہے ہیں۔ اس جہد کے ساتھ ہونا، اس جہد کیآواز بننا ، آپ سب پر فرض ہے۔ اپنے فرض کو سمجھیں، اور بلوچ قومی جہد کے ساتھ شامل ہوجاہیں۔ منتوار۔

نوٹ یہ اردو ترجمہ استاد اسلم کے بلوچی اور براہوئی زبان میں دیے گئے پیغام سے کی گئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔