استاد اسلم بلوچ، نواب خیر بخش مری کا شاگرد
تحریر۔ سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دسمبر کا مہینہ چل رہا ہے۔ دسمبر کا مہینہ اپنی خاموش اور اداس شاموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ چاہے ناولز ہوں یا شاعری دسمبر کی اداس شاموں کا ذکر ان میں ضرور آتا۔
پچھلے سال کی وہ دسمبر ہی کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ جب یہ خبر ملی کہ استاد اسلم بلوچ کندھار میں ایک خودکش حملے میں ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے ہیں۔ آج استاد کو ہم سے بچھڑے ایک سال مکمل ہوگیا۔ شہید استاد اسلم بلوچ کی بلوچ قوم اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے لیئے ان کے لازوال قربانیوں کے لیے خراج عقیدت دینے سے میرا یہ قلم تذبذب میں ہے کہ کیا میرا یہ قلم استاد کو ان کی قربانیوں کا حق پورے انصاف کے ساتھ عطا کر پائے گا، تو یقیناً میرا قلم قاصر ہی رہے گا۔
بابو نوروز خان کے علاؤہ بلوچستان کی مٹی کا حق اگر پورے دل و جان کے ساتھ کسی نے ادا کیا ہے تو وہ استاد اسلم بلوچ ہی تھے۔ استاد نے جس بہادری سے اپنی زندگی کے انمول اثاثے، اپنے فرزند ریحان بلوچ کی زندگی کو خوشی کے ساتھ مادر وطن کے لیے قربان کیا، اسکی مثال شائد بلوچستان کے آزادی کے تحریک میں کم ملے۔ استاد اسلم بلوچ نے اپنی زندگی کے 25 سال بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑ کر بلوچستان کے پہاڑوں میں گزاری۔ بلوچستان کے بولان سے لے کر سر لٹھ تک سب کوہ استاد کی ان لمحوں کی گواہی دیں گے، جو استاد نے ان پہاڑوں میں گزاری ہوں گی۔ چلتن کے پہاڑ سردیوں کی سخت یخ بستہ راتوں کی اور بولان کے پہاڑ اگست کے تپتی دھوپ کی دنوں کی گواہی دیں گی کہ کیسے استاد ان کا سنگت بن کر ان میں رہا، اور جس جان فشانی کے ساتھ اپنی زندگی کا ہر لمحہ استحکام اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی سر زمین بلوچستان کے لیے وقف کیا، وہ خود تاریخ میں ایک نا قابل تسخیر تاریخ بن گیا۔
استاد نے اپنے ہر قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نواب خیر بخش مری کے شاگرد تھے اور شہید بالاچ مری کے ساتھی اور ہمنوا تھے۔
استاد اسلم بلوچ ، نواب خیر بخش مری اور بالاچ مری کی طرح اپنی زندگی کے آخری سانس تک صرف اور صرف آزاد بلوچستان کے ہی فلسفے پر قائم رہے۔ اور آزاد بلوچستان کے نظریے پر کوئی سمجھوتا قبول نہ کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استاد کی شہادت سے بلوچ آزادی تحریک کو نا قابل بیان نقصان ہوا ہے، وہ خلا پر ہونے میں صدیاں لگا جائیں گی۔ جسطرح سے استاد مشکل وقت میں بھی اپنے آزاد بلوچستان کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے اور تنظیم جس خلفشار کا شکار ہوچکا تھا، اسے ایک عظیم لیڈر کی طرح ایک نئے سے سرے سے منظم کرکے یک جا کیا اور بلوچ سرمچاروں کا حوصلہ بن کر انھیں ایک نئی طاقت دی، وہ قابل تعریف تھی۔ بلوچ آزادی تحریک کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت تھیں۔ شہید استاد اسلم بلوچ ایک دوست بن کر، ایک شفیق باپ بن کر، ایک کمانڈر بن کر ہمیشہ بلوچ سرمچاروں کا حوصلہ بلند کرتے رہے اور انکے ساتھ شانہ بہ شانہ انکے ساتھ کھڑے رہے۔
استاد کی شہادت کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ لیکن دشمن یہ بھی جان لے، اگرچہ اس نے استاد کو ہم سے جدا کیا لیکن استاد کی سوچ ، فکر ، اور نظریہ اب ہر ایک بلوچ کا نظریہ بن چکے ہیں۔ وہ اس نظریے کو اب ختم نہیں کر سکتا ہیں، بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس نظریے میں اور پختگی نظر آرہی ہیں۔ دشمن کو اس میں کوئی ابہام نہیں رہنی چاہیئے کہ، ہر بلوچ اپنے اندر میں پورا بلوچستان ہوتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔