اب لوٹ آؤ
تحریر : علیزہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دوستی ایک بہت ہی پیارا، خوبصورت اور پاکیزہ رشتہ ہے، ایک ایسا احساس جس کے سامنے تمام رشتے ماند پڑ جاتے ہیں۔
انسان کو زندگی میں رشتے تو ملتے ہی ہیں مگر احساسات کا ایک رشتہ ایسا بھی ہے کہ جس میں زندگی ملتی ہے، اور وہ رشتہ دوستی کا ہے، زندگی میں ہر رشتے کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے بالکل اسی طرح دوستوں کی کمی کو کوئی دوسرا رشتہ پورا بھی نہیں کر سکتا۔
یہی وہ ایک واحد رشتہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی مرضی اور خوشی سے منتخب کیا ہوا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اُن لوگوں کے لیے ایک انمول مقام کی حیثیت رکھتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میری ایک سوچ اور نظریہ ہے، جس سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے، اور اس نظریے سے دوسرے لوگ بھی مستفید ہو سکتے ہیں جن تک آپ کی رسائی پہلے ممکن نہ تھی۔
سوشل میڈیا پر یوں تو کئی نام کے دوست مل جاتے ہیں، مگر حقیقی اور نظریاتی دوست جو مجھے اس سوشل میڈیا کے ذریعے ملے ہیں یقیناً میں بہت ہی خوش نصیب ہوں، انہی دوستوں میں سے میرے لیے ایک انمول دوست راشد ہے، راشد میرا بھائی، میرا دوست، میرا ہمدرد، ہر خوشی، ہر غم اور ہر پریشانی میں میرا ساتھ دینے والا راشد سب سے زیادہ مجھے تنگ کرنے والا مگر سب سے ذیادہ میرا خیال رکھنے والا راشد ایک بھائی جیسا دوست یا پھر دوست کی شکل میں ایک بھائی ہے، اسے 26 دسمبر 2018 کو پاکستان کے کہنے پر متحدہ عرب امارات کی حکومت نے شارجہ سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
یہ خبر ایک قیامت سے کم نہ تھی جب 22 جون 2019 کو اسے ایک پرائیویٹ طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا، جہاں اسکی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے،راشد کو پاکستان جیسے انسانی حقوق کے حوالے سے بدنام ملک کے حوالے کر دینا وہ بھی غیر قانونی طریقے سے امارات حکومت کا ایک نہایت شرم ناک عمل ہے۔
راشد کی ماں سے پہلی بار میں کیمپ میں ملی تھی اور جس دن ان سے ملی بالکل وہی اپنے پن کا احساس راشد سے زرا بھی الگ نہیں، ایسالگا جیسے بہت پہلے سے ان سے بہت ہی گہرا رشتہ ہو اور بھلا کیوں نہ ہو آخر وہ ماں کس کی تھی اس راشد و ضیاء کی ماں جنہوں نے خود میں اور ہم میں کبھی فرق نہ کیا ہو ایسے مہربان دوستوں کی ماں بھلا ان سے مہر و محبت اور شفقت میں کم ہو سکتی تھی۔
راشد کی جدائی نے ہر موقع پر بہت رلایا ہے ہنسی مذاق، خوشیاں اور غم اور پریشانیاں ہر موڑ پر اسکی یاد نے بہت کمزور سا بنا دیا ہو جیسے ہر جگہ راشد کی کمی کا احساس ایک نہایت ہی درد ناک احساس ہے اور اس درد کو صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو اپنے قریب ترین رشتوں سے جدا ہوئے ہوں۔
اماں سے مل کر ان کی آنکھوں میں راشد کی جدائی کا غم ، میں بہت گہرائی سے محسوس کرتی ہوں مگر ان کے حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر میں خود کو کافی حوصلہ مند پاتی ہوں، ان سے ملنے سے پہلے مجھ میں راشد کی جدائی کا ہمت و حوصلہ نہیں تھا، اماں کی ہمت کو دیکھ کر مجھے کافی حوصلہ ملا ہے، اس عمر میں اپنے لختِ جگر کا سراغ لگانے کا جو حوصلہ جو ہمت میں نے اماں کی آنکھوں میں دیکھی ہے بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے،اتنی پر امید میں پہلے نہ تھی جس طرح سے اماں کو ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹاتے، ہر ایک کی ضمیر جھنجھوڑتے ہوئے دیکھ رہی ہوں یقیناً راشد کو ہماری یہی پر امید ہونا ہی ایک دن واپس لے آئے گی۔
آج بھی اگر کبھی کسی بات پہ پریشان ہوتی ہوں تو راشد یاد آتا ہے اور بے خیالی میں ہی اس سے باتیں کرتی ہوں کہ لوٹ آؤ راشد دیکھو آج بھی اداس ہونے پر مجھے تمہاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے، لوٹ آؤ کہ اپنی پریشانیاں تم سے بانٹ سکوں اور تم ہمیشہ کی طرح اپنی دانشوری اور عقلمندی اپنے خوبصورت الفاظ سے انہیں کم کر سکو ختم کر سکو، اپنی مومو کو پھر سے ہنسا سکو۔
میرے ہر دکھ درد میں اس طرح سے ساتھ ہونا جیسے وہ صرف میرے اکیلے کا غم نہ ہو اور ہنسی مذاق اور باتوں باتوں میں اس غم کو ایسے مجھ سے دور کرنا کہ پھر اس کا احساس بھی باقی نہ ہوں، راشد لوٹ آؤ دیکھو اماں کہتی ہے جن لوگوں کو تمہاری شادی کا بلاوا دینا تھا انہیں آج تمہاری تلاش کے لیے بلاوا دے رہی ہوں،دیکھو اماں تمہاری تصویر سے باتیں کرتی کہتی ہے کہ مجھے تمہاری آنکھیں رونے نہیں دیتی تم میرا حوصلہ ہو، لوٹ آؤ راشد اس سے پہلے کہ یہ حوصلے ٹوٹے بس لوٹ کر آ جاؤ۔
اماں کو اس بیمار حالت میں تمہارے لیے در بدر بھٹکتے دیکھتی ہوں تو بہت بے بسی محسوس ہوتی ہے، اماں کی خواریوں کو دیکھ کر دل کرتا ہے کہ بس چھین کر لے آؤں تمہیں مگر کیسے؟؟ جب یہ “کیسے” ذہن میں آتا ہے تو بس اپنی بے بسی لاچاری پہ رونا آتا ہے، میں رونا نہیں چاہتی کیونکہ آنسو کمزوری کی علامت ہوتے ہیں اور مجھے کمزور نہیں ہونا کیونکہ میں تمہاری دوست ہوں، کیونکہ مجھے اماں کے ساتھ تمہیں ڈھونڈ کر لانا ہے مجھے مضبوط ہونا ہے، مگر میرے آنسو کیوں میرے اختیار میں نہیں؟؟ میں کیوں خود کو رونے سے روک نہیں پا رہی؟؟ شاید میرے پاس راشد نہیں،ہاں میرے پاس تم نہیں ہو راشد جو ہمیشہ کی طرح میرا حوصلہ بن کر مجھے رونے سے روک سکو. مجھے مومو کہہ کر مجھے ہنسا سکو۔
آخر کہاں ہو تم؟؟ لوٹ آؤ بس اب لوٹ آؤ کہ اس سے پہلے ہمت و حوصلے ٹوٹنے لگیں، ابھی تو تمہاری شادی کا ارمان پورا کرنا ہے، ابھی تو تمہیں شادی کے نام پہ اور تنگ کرنا ہے، دیکھو ایک سال بیت گیا، یہ ایک چھوٹی مدت نہیں ہوتی جانتے ہو نا 365 دن ہوتے ہیں، اتنا آسان نہیں ہوتا کسی اپنے کے بغیر ایک سال گزارنا،تمہیں تو پتہ ہے ناں تم خود بھی تو ضیاء اور حئی کے بغیر رہ رہے تھے تمہیں احساس تو ہے ناں اس بات کا کہ کتنی اذیت ناک ہوتی ہے اپنوں کی جدائی، تو پھر بس کرو اب بس آ جاؤ کہیں سے بھی ،بس لوٹ آؤ اب، لوٹ آؤ،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔