آزادی وطن یا مرگ شہادت ۔ شہیک بلوچ

691

آزادی وطن یا مرگ شہادت

تحریر۔ شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ کوئی سہل کام نہیں کہ لامتناہی جذبات کو لے کر چند جملوں میں صفحہ قرطاس پر ان احساسات کا اظہار کرنا جو ایک عظیم فکر کے عظیم عملی کردار کے حوالے سے ہوں۔

اس کہانی کی ابتداء ماضی قریب سے نہیں ہوتی بلکہ یہ کہانی کافی طویل ہے اور اس کے مکمل سلسلے کو سمجھتے ہی ہم اس اہم حصے کو سمجھ پائینگے جس کا تعلق ہماری دھرتی کے افتادگان خاک سے ہے۔

انسانی وجود کو کرہ ارض پر خاک جھیلتے جھیلتے اور ارتقاء کی تلخ ڈگر پر چلتے ہوئے یہاں تک پہنچنے میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ کہن سے جدت کی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ انسان نے بہتر سے بہترین کی تلاش میں انسانی ارتقاء کے مختلف منازل طے کیے۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے دوران ظالم و مظلوم کی کشمکش یا فینن کے انسان و دیسی کی کشمکش میں بھی اضافہ ہوا، غلامی کے اندھیرے مزید گہرے ہونے لگے لیکن شعور کی روشنی نے بھی کبھی اپنے دامن کو سمیٹنے نہیں دیا اور محکوموں کی رہنمائی کی۔

اس روشنی کو ہم مختلف صورتوں میں دیکھتے ہیں لیکن ہماری دھرتی پر اس روشنی کی سب سے خوبصورت عملی مثال استاد اسلم بلوچ ہیں۔ اگر کوئی بلوچ کردار کو اپنانا چاہتا ہے یا سمجھنا چاہتا ہے تو استاد ایک رول ماڈل ہے۔

تحریک کے ابتدائی مرحلے سے لے کر ریاستی جبر کے انتہا تک یہ کردار مزید پختہ ہوتا، نشوونما پاتا دکھائی دیتا ہے، جس نے ہر مقام پر نیشنلزم کے تحریک کی آبرو کو برقرار رکھا۔

یہ آہنی ارادہ وژنری لیڈر ہی رکھ سکتا ہے جو گذرتے وقت کیساتھ بڑھتے ہوئے جبر کی صورت میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہو۔

استاد نے ابتدائی مرحلوں میں جس طرح اپنا کردار ادا کیا پھر بعد میں جس طرح تحریک کو بحرانی کیفیت سے نکالا یہ اعصاب شکن مرحلہ تھا۔ ایک حد تک منظر نامہ یہ تھا کہ تحریک فقط قبائلی و علاقائی ضد و انا کا انبار بن چکا ہے اور بہت سے نظریاتی دوست بحرانی کیفیت میں قبائلی کرداروں کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں لیکن اس تمام تر مایوس کن صورتحال میں استاد کا بطور رہبر ابھرنا کسی صورت معجزے سے کم نہیں۔

استاد نے ذمہ داری اٹھائی اور غلط رویوں کو تسلیم کرتے ہوئے، وہ قربانی دی جس نے بلوچ تحریک میں نظریاتی بنیادوں پر ہم آہنگی کے لیے راہ کو ہموار کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو دور کیا۔ سب سے بڑھ کر استاد نے ان رویوں کی نشاندہی کی جن کے سبب بلوچ قومی تحریک مسلسل بحرانی کیفیت کا شکار ہورہا تھا لیکن یہاں پر روایتی ذہنوں نے استاد کے اصولی موقف کو سمجھنے کے بجائے ان کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کردیا، ان سب الزامات کا جواب استاد نے اپنے عمل سے دیا۔

ریاستی جبر کے انتہا پر انتہائی فیصلے لینا لازم تھے کیونکہ سوال تحریک کی بقاء کا تھا اور توانائیوں کا رخ ریاست کے خلاف موڑنا تھا ایسے میں فدائی حملوں کی صورت میں تحریک کو دوبارہ منظر عام پر لانا جنگی حکمت عملی کے حوالے سے دانشمندانہ اقدام تھا لیکن قربانی کی جو لازوال داستان رقم کی گئی اس میں اپنے فرزند کو اس عمل میں سرفہرست لانا تھا۔

ریحان کو قربان کرکے استاد نے بلوچ قوم کی آنکھیں کھول دیں کہ آزادی وطن کے لیے اس حد تک قربانی کا جذبہ درکار ہے۔ استاد نے ریحان کے بعد مزید جذبے کیساتھ ریاست اور توسیع پسند چین کے خلاف تحریک کو مزید مستحکم کیا۔ اور بلوچ قومی تحریک عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر زیر بحث آنے لگی اور بلوچ قوم بھی اس ابھار سے پرامید ہوئے، ریاست نے استاد کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے ہوئے انہیں دوستوں سمیت شہید کردیا۔

استاد نے بلوچ قوم کو آزادی وطن یا مرگ شہادت” کا نعرہ دیا اور وہ خود بھی دشمن کے خلاف ایک طویل صبر آزما جنگ لڑنے کے بعد شہید ضرور ہوئے لیکن ان کا فکر آج مزید توانا ہوچکا ہے۔

ہمیں دکھ ضرور ہے کہ استاد جیسے وژنری لیڈر کے خلاء کو پر نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم استاد کے بعد مایوسی کا شکار ہیں بلکہ استاد اسلم کے فکر نے بلوچ جہدکاروں کو مزید پختگی عطا کیا ہے۔ اب یہ جدوجہد مزید شدت کیساتھ جاری رہیگی کیونکہ اس کی رہنمائی اب فکر استاد اسلم بلوچ کرے گا۔ بلوچ دھرتی پر قابض نوآبادکار کے لیے یہ فکر استاد اسلم قہر بن کر ٹوٹے گا۔

بلوچ دھرتی پر لمہ یاسمین جیسی باہمت مائیں اب بھی موجود ہیں جو ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

استاد اسلم بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کی جدوجہد کو مزید تیز کریں اور بلوچ اتحاد و یکجہتی کے لیے ادارجاتی بنیادوں پر کام کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔