ہمیں مستقل مزاج قومی جہدکار ہی بننا ہوگا – سہُراب بلوچ

619

ہمیں مستقل مزاج قومی جہدکار ہی بننا ہوگا

تحریر: سہُراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں ایک لفظ تمام محفلوں، اسٹڈی سرکلوں، پارٹی میٹینگوں اور لیڈر شپ کی دیوانوں میں سنتا آرہا ہوں کہ ہمیں تاریخ کے علم پر عبور حاصل ہونا چاہیئے اور گذشتہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔

تاريخ ايک ايسی شئے ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے قوموں کی حالت زار ،جنگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔ تاریخ کے علم پر عبور ہونے کا مقصد یہی ہے کہ انسان جب اپنی تاریخ کو پڑھتے ہیں تو ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اپنے مسقبل کے سفر کے لیے پالیسیوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

تاریخ سے سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ماضی کے خوبی و خامیوں کو جانچ پرکھ کر پھر گذرے ہوئے تاریخ سے سبق حاصل کرکے ان غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہراتے،چونکہ راقم کا موضوع تاریخ نہیں ہے اس لیے ہم یہاں تاریخ میں نہیں جائیں گے۔

بلوچ قوم گذشتہ 7 دہائیوں سے ایک ایسے شاطر و مکار ریاست کے خلاف اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے، جو دنیا اور انسانیت کی تہذیب سے نا آشنا ریاست { مملکت داد برطانیہ } پاکستان ہے۔ پاکستان کا نام دنیا میں تمام بڑے قبضہ گیر و دہتشتگرد ریاستوں کے فہرست مں شامل ہے، جو بیک وقت تین بڑی قوموں بلوچ ، سندھی اور پشتون قوم پر قابض ہے اور اپنی دہشتگرد فوج و دہشتگرد پراکسیوں کی مددسے ہی ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا کا درد سر بن گیا ہے۔

دنیا میں تمام مظلوم قوموں کی تاریخ کو پرکھا جائے، جنہوں نے اپنی قومی آزادی کےلیے جدوجہد کی، قربانیاں دیں، ظالم قبضہ گیر کو مجبور کرکے اپنی سرزمین سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، آج اپنے ہی وطن کی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اگر ہم ان قوموں کی دوران آزادی کی جدوجہد کو اپنی ہی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے کمپیئر کریں تو بہت سے چیزوں کی یکسانیت ہمیں نظر آتا ہے۔ وہ یکسانیت غلام قوموں زہنی ہم آہنگی، دشمن ریاست کو اپنے ملک سے مجبور کر کے باہر نکالنا اور اپنی قوم کو صبح آزادی کی نوید سنانا ہے، اور دوسری یہ ہے کہ اگر دنیا میں کوئی بھی مظلوم قوم نے اپنی قومی آزادی کی منزل تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے، تو اُن کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ اُن قوموں کی آزادی کی جدوجہد کو اہم، مضبوط و مستحکم قومی پارٹی{ سیاسی پلیٹ فارم} مہیا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، ان مظلوم قوموں کی آزادی کی جدوجہد کو قومی پارٹی کی رہنمائی ہی حاصل تھی۔

اب ہم آتے ہیں اپنے اصل ٹاپک کی جانب، اگر ہم دوسری قوموں کی جدوجہد آزادی کے تاریخ کو پڑھ کر پھر اپنی قومی جدوجہد آزادی کی جنگ کو ہو بہو اُنہی قوموں کی آزادی کی جدوجہد کی طرح آگے لے جا سکتے ہیں؟ دشمن ریاست سے بلوچستان کا قبضہ چُھڑا سکتے ہیں؟ یقیناً ہمارا جواب نفی میں ہی ہوگا کیوں کہ ہر علاقے کے زمینی حقائق الگ الگ ہیں، نفسیات الگ الگ ہیں، دشمن الگ لگ ہیں، جغرافیائی حوالے سے بھی وقت و حالات کافی بدلاؤ رکھتے ہیں۔

اگر ہم بلوچستان کو دنیا میں ایک آزاد ملک بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو ہمارے بلوچ قوم کا یہ خواب اس وقت پورا نا ہوگا جب تک کہ ہم اپنے صفوں کے اندر اتحاد و اتفاق کی فضا قائم نا کریں گے اور اپنی ذاتی انا کی قُربانی نا دے دیں۔ اپنی ڈیڈھ انچ کی مسجد والا سوچ سے نکل کر تمام قسم کے نسلی گروہیت، ذاتیات سے بڑھ کر صرف اور صرف بلوچ بن کر بلوچ جدوجہد کی منزل آزادی کو سمجھ کر آگے محو سفر ہونا چاہیے۔

بلوچ قومی جدوجہد آزادی کو مستحکم قومی فوج اور ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی تگ ودو کرنا شروع کردیں۔ اپنے گذرے ہوئے جدوجہد پر نظر دوڑائیں کہ گذشتہ ایک دہائی سے ہم سے کہاں غلطی سرزد ہو گیا ایک دفعہ پھر خود کو ان غلطیوں کے سدباب کرنے کے لیے کوشش کرنا چائیے۔ نہ کہ پھر وہ غلطیاں دہرانا چاہیے۔

خاصکر تمام بلوچ آزادی پسند پارٹیوں اور بلوچ لیڈر شپ کو چاہیے کہ ایک سیاسی سرکلنگ کا اہتمام کیا جائے۔ اگر پارٹیوں کے کارکنان کے معمولی سے خدشات گلے و شکوے ہیں تو صبر و تحمل کا مزاج اپنا کر دوستوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے انہیں مطمین کریں، ہو سکتا ہے کچھ جگہوں میں ورکروں کے ذمہ داروں سے رابطے کا فقدان ہے، وقت و حالات کے پیمانے پر انہیں بھی بحال کرنا چاہیے۔ خدا نہ کرے ایسا نہ ہو کہ معمولی سا دل رنجی و خدشات کی بنیاد پر دوست اپنا نظریہ {تنظیم} بدلنے کی حوالے سے سوچیں۔

ہر قومی جہد کار سے وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بنسبت شخصیتوں سے اپنی قومی پارٹیوں و قومی جہد کو توجہ دے دیں، اور ہاں پارٹی لیڈرشپوں و ذمہ داروں کا قدر و احترام اپنی جگہ۔ ایک قومی جہد کار کیلئے اپنا نظریہ و قومی جہد سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہونا چاہیئے. ہر وہ انسان قابل قبول ہونا چاہیے جو ذاتیات،علاقیات، قبائلیت، و مذہب سے قومی آزادی و قومی آزادی کی جدوجہد کو بالا تر سمجھ کر عملاً اپنی بساط کے مطابق قومی جدوجہد آزادی کے کاروان میں شامل ہیں۔ ہم اس وقت اپنی منزل کو پہنچنے میں کامیاب ہونگے کہ ہم خود اپنے قوت بازو پر یقین کر کے اپنے مکمل قوم {عوام} کو جدوجہد آزادی کی سفر میں شمولیت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹیوں میں کارکنان کو شعوری طور پر جدوجہد آزادی کی تکالیف قومی بقاء کے لیے قُربانیاں دینے کے حوالے سے روایت سے ہٹ کر عملی طور پر تیار کرینگے۔ اور ہاں قومی آزادی کے جہد کاروں کو مستقل مزاج ہونا چائیے۔

ہمارے ہاں ایک بہت بڑی کمزوری مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔ جنگ نام ہے تباہی کا، بربادی کا اور وہ انسان جنگِ آزادی کو منزل سے ہمکنار کر سکتے ہیں، جنگ آزادی کی پُر کٹھن راستوں کی مصیبتوں سے مقابلہ کرسکتے ہیں، وہ ایک خالصتاً مستقل مزاج قومی جہد کار ہو۔ مستقل مزاج قومی جہد کار وہ ہے جن کو اپنے قومی نظریے سے جنونیت کی حد تک پیار ہوتا ہے،کھبی بھی سطحی معملوں پر اپنا نظریہ بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کے لیے اپنے نظریے سے بڑھ کر کوئی چیز نظریے کا نعم البدل نہیں ہوتا ہے، ایک قبضہ گیر ریاست سے اپنی قومی آزادی کی جنگ کرنے کیلے وقتی جذباتی پن سے نکل کر دانستہ طور پر مستقل مزاجی سے قومی جہد کار بن کر اپنے منزل مقصود قومی آزادی کی جانب رواں دواں ہونا چاہیے۔

اگر ہم نزاکتِ وقت کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں، ہر چیز کو وقت و حالات کی رحم و کرم پر چھوڑ کر راہ فراریت اختیار کردیں۔ تو تاریخ بھی ہمیں کبھی معاف نہیں کریگا۔ یہ آج بلوچ ماوں و بہنوں کے بہتے ہوئے آنسو اور ہمت و حوصلے و ماوں کی وہ قوم و سرزمین سے جنونیت کی حد تک پیار جو اپنی بچوں کو خوشی خوشی سے قومی جھنڈا اوڑھ کر اپنی سرزمین کے لیے قُربانی دینے کے لیے بارود سے بھرے ہوئے ٹرک پر بٹھا کر آخری بار اپنے بچوں کا گال چوم کر موت کی آغوش میں دکھیل کر الوداع کرتے ہیں۔ ہمارے ماوں کے بلند و بالا حوصلے و قوم پرستی کا جذبہ ہم سے یہی تقاضہ کرتے ہیں اورہم اُس وقت خود کو قومی شہیدوں کا اصل وارث قرار دینے میں حق بجانب ہونگے کہ ہم سطحی سوچ سے بالاتر ہوکر ہم اپنی صفحوں میں باہمی ادب و احترام و باہمی اتحاد و اتفاق کی سوچ کی فضا قائم کرنے میں عملاً جدوجہد کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔