لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3787 دن مکمل ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابق چیئرمین مہیم خان بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر عبدالولی کاکڑ اور دیگر شامل تھے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ وفد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے نہیں بلکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم نے ہر زاویے سے اس جہاں کا معائنہ کیا اور یہ جاننے اور پرکھنے کی کوشش کی کہ ظلم جبر اور زیادتیوں کا بازار اکثر گرم ہوتا تھا اور کون صدیوں سے اس کی لپیٹ میں جھکڑا ہے اپنی زندگی سے ایک بے حال او ر خاموش تصویر کی عکس بندی کر رہے ہیں ہمیں تو کئی لوگوں نے اپنی درد بھری کہانیاں سنائی ہے مگر ہم پرانی یادوں کو تازہ کرکے ہم ان کے زخموں پہ نمک چھڑکنا نہیں چاہتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے ہیں کہ انکے درد و غم تازہ ہو اور اسی لئے خاموش ہیں۔
ماما قدیر نے کہا آج ان ماؤں کی حالت پوچھ لیں کہ وہ کس طرح کی کرب ناک زندگی جی رہے ہیں جن کے لخت جگر کئی کئی برسوں سے لاپتہ ہیں کئی داستانیں آپ کو بھی ملیں گے جو انتظار کرتے کرتے جہاں فانی سے رخصت ہوئے ہیں مگر انہیں اپنے پیاروں کا دیدار نصیب نہیں ہوا ہے آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان طالب علم لاپتہ ہیں جو پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ٹارچر سیلوں میں زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہے ہیں مگر ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کہاں اور کس حال میں ہے، ایک شخص کو اٹھاؤ اور غائب کرو اس بات کو بولنا اور سننا آسان ہوگا مگر اس حقیقت کے سائے تلے زندگی جینا کیا ہوتا ہے ہم تصور ہی نہیں کرسکتے ہیں۔
ماما قدیر نے مزید کہا بلوچستان میں جو لاپتہ ہوتے ہیں ان میں شاہد کوئی خوش نصیب ہی ہوگا جو واپس آئے گا اس کے علاوہ جو لاپتہ شخص اپنے حقوق کے بارے میں بولتا ہے اس کو بھی خاموش کیا جاتا ہے آج بلوچوں پہ ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے ہیں اس کے باوجود ہمارے مذہبی مولوی اور ملاؤں کو برما، فلسطین اور شام کے حالت اور وہاں پہ ظلم نظر آتے ہیں مگر اپنے گھر کے اندر جو ہورہا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا ہے، ناروے میں قرآن شریف کی توئین ہمارے مولوی کو نظر آتا ہے مگر اپنے خود کے گھر میں پاکستانی فوج نے جو گھروں کو جلایا ہے وہاں پہ قرآن شریف اور دوسرے مقدس کتابوں کو جلایا جاتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتے ہیں۔