ڈاکٹر مالک بلوچ کا ٹی بی پی کے ساتھ خصوصی انٹرویو

1911

ڈاکٹر مالک بلوچ کا ٹی بی پی کے ساتھ خصوصی انٹرویو

دی بلوچستان پوسٹ انٹرویو

بلوچستان کے ضلع کیچ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچوں کے ہوت قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم تربت کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی اور انٹرمیڈیٹ عطاء شاد ڈگری کالج تربت سے مکمل کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کی ڈگری بولان میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ آپ پیشے کے لحاظ سے آنکھوں کے ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سیاست کا آغاز بلوچ طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا، بعد ازاں آپ نے دوسرے سیاسی رفقاء کے ہمراء 1987 میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے پارٹی قائم کی اور اگلے سال اسی جماعت سے انتخابات میں حصہ لیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر نواب اکبر خان بگٹی کے کابینہ میں وزیر تعلیم بنے۔ آپ نے 1993 میں نواب ذولفقار مگسی کے کابینہ میں صوبائی وزیر صحت کے حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے۔

2004 میں غلام محمد بلوچ بلوچستان کی آزادی کے منشور کے ساتھ پارٹی سے الگ ہوئے اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے قیام کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر حئی بلوچ کی قیادت میں دوسرے دھڑے کا نام بدل کر نیشنل پارٹی رکھ دیا گیا۔ 2008 میں ڈاکٹر مالک بلوچ نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ 7 جون 2013 کو آپ بلوچستان کے اکیسویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، جو 23 دسمبر 2015 تک جاری رہا۔

ڈاکٹر مالک بلوچ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بلوچ سیاست کے چاروں ستونوں نواب خیربخش مری، غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ آپ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں۔

بلوچ سیاست میں ایک طرف ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ایک تجربہ کار و زیرک سیاستدان مانا جاتا ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آپ پر آج تک بدعنوانی کا ایک بھی کیس ثابت نہیں ہوا ہے، تو دوسری طرف ڈاکٹر مالک بلوچ اور انکی طرز سیاست خاص طور پر بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے ہدفِ تنقید بنتا رہا ہے، ان پر اور انکی جماعت پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ ان متضاد بیانیوں کے حقیقت جاننے اور بلوچستان کے موجودہ حالات پر انکی رائے لینے کیلئے گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ایک تفصیلی مکالمہ کیا جو قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: نیشنل عوامی پارٹی نظریاتی طور پر جب دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو آپ نے نواب خیر بخش مری کی حمایت کی تھی، جو میر غوث بخش بزنجو کے اس موقف سے متفق نہیں تھے کہ پاکستان میں رہ کر جمہوری جدوجہد کی جائے۔ یہی نظریاتی تقسیم بلوچ قوم پرست سیاست میں آج بھی شدت کے ساتھ قائم ہے، لیکن بعد ازاں آپ نے مزاحمت کے بجائے پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جس پر آج تک کاربند ہیں۔ اس نظریاتی تضاد کو آپ کیسے بیان کرتے ہیں اور کیا وجہ تھی کہ آپ نے مزاحمت پر پارلیمنٹ کو ترجیح دی؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: میرے نزدیک بلوچ سیاست میں جتنے تقسیم ہوئے، چاہے وہ سیاسی پارٹیوں کی تھیں یا بی ایس او کی۔ ان میں صرف میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش کے اختلافات اور تقسیم نظریاتی تھی۔ باقی جتنے تقسیم ہوئے وہ یا تو عہدوں کے وجہ سے تھی یا مالیاتی فائدہ، (جس کی تفصیلات میں لکھ چکا ہوں جو ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔) چونکہ میں بی ایس او کا ایک رکن تھا اور اس تقسیم سے بی ایس او میں بھی تقسیم ایک قدرتی عمل تھا۔ ایک گروپ کی نمائندگی رازق بگٹی کررہے تھے، جس کے ساتھ اسلم کرد، ایوب جتک، حبیب جالب، ڈاکٹر حسین، محمد خان مینگل، ڈاکٹر نصیر دشتی، میں اور میرے دوسرے بہت سے دوست تھے، جو اکثریت میں تھے۔ جو نواب خیر بخش کے فکر اور عمل سے متفق تھے۔ دوسری جانب ڈاکٹر عبدالواحد (سرجن)، ڈاکٹر جہانزیب (سینیٹر)، مہیم خان بلوچ (جو ہمارے چیئرمین تھے)، مجید ساجد، طاہر بزنجو، میر حاصل اور دوسرے دوست تھے۔

جب حیدر آباد سازش کیس ختم ہوا تو دوستوں کی خواہش تھی کہ نواب خیر بخش مری سے ملکر انقلابی پارٹی تشکیل دی جائے اور رازق بگٹی کو یہ ذمہ داری دی گئی، جو نواب خیر بخش مری سے قربت رکھتے تھے لیکن بہت کوششوں اور آرزؤں کے باوجود یہ خواہش پوری نہیں ہوئی، تب جاکر دوستوں نے بلوچستان لبریشن موؤمنٹ تشکیل دی اور اس دوران ثور انقلاب اور ایرانی انقلاب آئے، جس نے ہمیں بہت ہی جذباتی بنایا۔ اس دوران بی ایس او کا جو کنونشن بلوچستان یونیورسٹی میں ہوا، اس میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ترقی پسند اور قومی آزادی کے نمائندوں نے شرکت کی، اس کامیاب کنونشن کے ردعمل میں جنرل رحیم الدین جو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر بلوچستان تھے نے کئی کارکنوں اور قائدین کی وارنٹ گرفتاری جاری کی۔

ہم کچھ دوست انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔ بی ایس او اور بی ایل ایم کو منظم کرتے گئے۔ ایوب جتک گرفتار ہوئے اور اس پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ رازق بگٹی اور جالب افغانستان اور پھر ماسکو چلے گئے۔ 1985ء میں ہمارے اور رازق بگٹی کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور بی ایل ایم تقسیم ہوا۔ پھر ہمارے تمام دوستوں کا ایک میٹنگ ہوا، جس میں اس نتیجے تک پہنچے کہ فی الحال معروضی اور موضوعی حالات مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں ہیں لہٰذا جمہوری جدوجہد کے لیئے نئی جمہوری پارٹی تشکیل دی جائے۔

24 دسمبر 1987ء کو بلوچستان نیشنل یوتھ موؤمنٹ کے نام کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران بی ایس او میں بھی تقسیم، بی ایس او (پجار) اور بی ایس او (صوب) کے ناموں سے ہوا تھا۔ جو جاگیرداری، قبائلی نظام کے خلاف تھا اور ایک ترقی پسند جمہوری اور سیکولر جماعت کی تشکیل جو ملک میں قوموں کی برابری، ان کی تشخص اور ساحل و وسائل کیلئے تھی۔

دی بلوچستان پوسٹ: پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ابتک آپ بلوچستان کے وزیر تعلیم، وزیر صحت، وزیراعلیٰ اور سینیٹر رہ چکے ہیں، لیکن بلوچستان کی قسمت بدلنا کجا، ناقدین اتنے مواقع کے بعد آپکی کارکردگی کو آپکے حلقے تک میں تسلی بخش نہیں سمجھتے۔ کیا یہ بطور سیاستدان آپکی ناکامی ہے؟ یا جیسا کہ آپ کہتے رہے ہیں کہ آپکے ہاتھ بندھے رہے ہیں، پھر کیا یہ آپکے نظریئے یعنی پارلیمانی جمہوری جدوجہد کے راستے کی ناکامی ہے؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: جب ہم نے بی این ایم کی تشکیل کی، ہمارا نقطہ نظر ایک منظم اور شعوری پارٹی تھی، جس کی بنیاد پر آج میں یقین سے کہتا ہوں کہ بی این ایم سے لے کر نیشنل پارٹی کی اس سفر میں پہلی دفعہ ہم نے عوام کو سیاسی کارکنوں کی قیادت میں ایسی پارٹی تشکیل دیکر دی ہے، جو آج بلوچستان کے کونے کونے میں عوام کی رہنمائی کررہا ہے۔ جہاں تک میرے وزیر گزیر بننے کا تعلق ہے اگر بقول آپکے، مجھے اپنے حلقے میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے تو میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کیونکہ میرے حلقے کے عوام نے مجھے چار دفعہ اپنا نمائندہ بناکر بھیجا ہے۔ میں نے اس دوران کیا کارکردگی دکھائی ہے یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کی تفصیلات یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپ اور آپکی جماعت کئی مواقع پر گذشتہ انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست، دورِ حکومت میں کرپشن کے الزامات، وزارتِ اعلیٰ کے دوران ڈیلیور نا کرنے کی وجہ، خفیہ اداروں کی مداخلت قرار دیتی رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی آپ کئی بار انتخابی عمل میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی حد درجہ مداخلت کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دے چکے ہیں۔ اس رو سے گر دیکھا جائے تو کیا غیر پارلیمانی جدوجہد کرنے والے بلوچ قوم پرست جماعتوں کا موقف درست ثابت نہیں ہوجاتا کہ اس نظام کے اندر رہ کر آپ کچھ نہیں بدل سکتے؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں کہ جس میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں نا یہاں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور نہ میڈیا آزاد ہیں، اس لیئے یہاں ریاستی ادارے مداخلت کرتے رہتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیاں بنائیں، جب تک وہ برسراقتدار رہے وہ پارٹی ان کے بیساکھیوں پر چلتے رہے اور ان کے بعد ان کا خاتمہ ہوا۔ اس نئی پارٹی کے ساتھ بھی تاریخ یہی سلوک رکھے گا۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ میں نے بطور وزیر اعلیٰ کیا ڈیلیور کیا یا نہیں اس کی تفصیلات پر نہیں جاؤں گا لیکن اتنا عرض کرتا ہوں میں بلوچ تاریخ میں پہلا عام سیاسی کارکن تھا جو اپنے کردار کی وجہ سے وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ دوران وزارت اعلیٰ میرے خلاف سرداروں، نوابوں، ملاؤں، کرپٹ سرکاری آفیسروں اور مڈل کلاس کے سیاسی کارکنوں کا ایک مقدس اتحاد بنا اور خوب مجھ سے اس عہدے کا بدلہ لیا گیا کہ ایک عام کارکن کیوں بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنا۔ یہ تو سرداروں اور نوابوں کے لیئے ہے۔

میں اس کو غیر پارلیمانی جدوجہد کی کامیابی نہیں سجھتا ہوں بلکہ اس جمہوری جدوجہد میں مزید مسلسل اور صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، آپ نے بھی اس بابت دعویٰ کیا تھا کہ اگر لاپتہ افراد کا مسئلہ آپ حل نا کرسکے تو وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہوجائیں گے، اور بعد ازاں آپ نے ذرائع ابلاغ کے سامنے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ آپکی حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ آپ اس مسئلے پر مستعفی تو نہیں ہوئے تھے لیکن اسکے بعد آپ یا آپکی نے پارٹی نے لاپتہ افراد کے حوالے سے نا کوئی ٹھوس جدوجہد کی اور نا ہی اس بابت تحریک کو آپکی جانب سے حمایت ملتی نظر آئی۔ اسکی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے، اور اس میں دورائے بھی نہیں کہ یہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے۔ میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نا کرسکا تو استعفیٰ دوں گا، بحیثیت ایک سیاسی کارکن میں اس مسئلے کو بخوبی سمجھتا تھا اور اس مسئلے کا حل بلوچ عسکری پارٹیوں سے مذاکرات کے کامیاب ہونے کی صورت میں مکمل ہوسکتا تھا اور میں نے مذاکرات کے لیئے اسلام آباد کے سیاسی اور عسکری قیادت کو راضی کیا تھا کہ بلوچستان میں امن اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک مذاکرات کے ذرائع حل نہ ہوں۔ اور میں نے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا لیکن میرے بعد اس عمل کو روکا گیا۔

ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ میں نے کراچی اور دوسرے جگہوں پر بار بار کہا ہے کہ میں لاپتہ افراد کے بازیاب کرنے میں ناکام رہا ہوں، اس کا آج میں اعتراف کرتا ہوں البتہ ہماری پارٹی نے لاپتہ افراد کے نام پر سیاست نہیں کی ہے۔ ان کی ہر طرح حمایت کیا تھا اور کریں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپکی جماعت جب بھی حکومت سے باہر رہی ہے تو بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں کی مذمت کرتی رہی ہے، لیکن جب آپ کو حکومت کا موقع ملا تو آپ بذات خود اس ایپکس کمیٹی کا حصہ تھے، جس نے بلوچستان میں آپریشنوں کی شدت میں کئی گنا زیادہ اضافہ کردیا۔ اعدادوشمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آپ کے دورِ وزارت اعلیٰ میں لاپتہ افراد ہوں یا فوجی آپریشن ان میں ہر طرح سے اضافہ ہوا بجائے کمی کے۔ اسی لیئے آپ پر الزام ہے کہ آپ جمہور کی آواز نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر وزیراعلیٰ بنے تھے، جس کی قیمت یہ آپریشن تھے؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعلیٰ نہیں بنایا تھا بلکہ ووٹ جمہور نے دیا تھا۔ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ 2013ء کا الیکشن کتنا سخت اور مشکل تھا، دو دفعہ بلوچ عسکری پارٹیوں نے مجھ پر حملہ کیا بلکہ نیشنل پارٹی کا کوئی امیدوار ایسا نہیں تھا کہ اس پر حملے نہ ہوئے اور یہ حملے صرف نیشنل پارٹی پر ہوتے تھے، باقی تمام پارٹیاں اپنے انتخابی عمل بڑے سکون سے چلارہے تھے۔ مجھے ایک بار نہیں چار بار میرے حلقے کے عوام نے منتخب کیا ہے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے، میرے سیاسی کارکنوں کی جدوجہد تھی اس وجہ سے۔

جہاں تک اپیکس کمیٹی کے میٹنگوں کی صدارت کرنے کی بات ہے، وہ صحیح ہے کہ بحیثیت وزیراعلیٰ میں صدارت کرتا رہا لیکن وہاں صرف لاء اینڈ آرڈر پر بات ہوتی تھی، جہاں تک آپریشن کا تعلق تھا وہ ممکن طور پر عسکری قیادت کرتی تھی، جس کا حکومت کو کوئی پتہ نہیں ہوتا۔

نیشنل پارٹی نے ہر وقت چاہے وہ حکومت میں رہی ہے یا اپوزیشن میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ الزامات ہم پر اقتدار ملنے سے قبل لگے تھے اور ہمارے کئی قائدین اور کارکنان کو اس لیئے قتل کردیاگیا تھا کہ ہم غدار ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اختلافات رائے رکھنے والے غدار اورواجب القتل قرار دیئے جائیں۔ کیا میر غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری کے درمیان اختلافات پر ایک دوسرے کے کارکنوں کی گردنی زنی کی گئی تھی؟ یا نواب خیر بخش مری اور میر ہزار خان اور شیر محمد مری نے ایک دوسرے کے ساتھ جب اختلاف رکھا تو لشکر کشی ہوئی تھی؟ یہ بات پھر میں واضح کرتا ہوں کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے نہیں، میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی نے میرے کردار و جدوجہد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپکی جماعت کا دعویٰ ہے کہ آپ مڈل کلاس کی نمائیندگی کرتے ہیں اور انٹی اسٹبلشمنٹ ہیں، اسی لیئے آپکو اسٹبلشمنٹ کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے۔ جبکہ بلوچ آزادی پسند جماعتیں آپکی جماعت پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ آپ باقاعدہ اسٹبلشمنٹ کیلئے آزادی کی تحریک کیخلاف سیاسی و عملی طور پر متحرک ہیں۔ آپکے جماعت کے کئی متحرک کرداروں پر الزام ہے کہ وہ خفیہ اداروں کی سرپرستی میں “ڈیتھ اسکواڈ” چلارہے ہیں اور آزادی پسندوں کے قتل و اغواء میں ملوث ہیں۔ کیا یہ آپکے موقف و معروضی حقائق کے مابین ایک تضاد نہیں؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: نیشنل پارٹی بلوچ عوام کی پارٹی ہے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی۔ ہماری جدوجہد سے ہر کوئی بہ خوبی واقف ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں نیشنل پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے، اس سے قبل 2002ء کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ بھی لوگوں کو بخوبی معلوم ہیں۔

ہمیں کسی کی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے یہ جماعت کسی کے خلاف نہیں بنایا ہے، جس وقت بی این ایم کی بنیاد رکھی گئی اس وقت بلوچستان میں مسلح جدوجہد نہیں تھا، نیشنل پارٹی کے کارکن اور قائدین کبھی بھی ڈیتھ اسکواڈ کا نہ حصے رہے ہیں نہ حمایتی، باقی میں آزادی پسند جماعتوں کے اس رائے پر حیران ہوں۔

گذشتہ کئی سالوں سے کیچ و پنجگور کے بہت سے علاقے جیسے بلیدہ، زعمران، مند، تمپ میں تمام پارٹیوں جیسے کہ بی این پی (عوامی)، بی این پی (مینگل)، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، باپ کے لیئے کوئی پابندی نہیں بلکہ صرف نیشنل پارٹی کے لیئے یہ علاقے نو گو ایریا بنادیئے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں مکران میں سرکار نے جو Depoliticization کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کو تقویت مل رہی ہے کیونکہ پنجگور اور کیچ میں نیشنل پارٹی سب سے زیادہ مضبوط اور متحرک قوم دوست پارٹی ہے۔ اور عسکری جماعتوں کے اس عمل سے سیاسی عمل کو نقصان پہنچا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: ایک مڈل کلاس قوم پرست جماعت ہونے کا دعویٰ و منشور اپنی جگہ لیکن آپکے پارٹی ٹکٹ سے جیت کر پارلیمنٹ جانے والے زیادہ تر سرداربزنجو، سردارلانگو جیسے سردار، میر و معتبر یا بزنس ٹائیکون کیوں ہوتے ہیں؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: نیشنل پارٹی ایک ملٹی کلاس پارٹی ہے، اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو اس کے پروگرام سے متفق ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل پارٹی کی قیادت سیاسی کارکن کررہے ہیں۔ میں ایک بات پر حیران ہوں کہ آزادی پسند، سرداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، اگر سردار بزنجو کی پوری خاندان نیشنل پارٹی میں ہے پھر کیونکر تنقیدی رویہ رکھتے ہیں؟

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ ساحل و وسائل کی حفاظت آپکے جماعت کا مقبول نعرہ ہے، گوادر پورٹ و سی پیک پر آپکی تنقیدانہ رائے اور بلوچوں سے روا نا انصافی پر بیانات ریکارڈ پر ہیں، لیکن دوسری طرف گذشتہ ماہ ستمبر میں آپ ایک وفد کے ہمراہ چین کو سی پیک کی حفاظت کے بابت یقین دہانی کراتے ہیں، اس سے پہلے بطور وزیر اعلیٰ چین میں معاہدات پر دستخط کرکے انکی توثیق کرتے ہیں۔ کیا یہ آپکے پارٹی منشور کا تضاد نہیں؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: سی پیک کے حوالے شروع دن سے نیشنل پارٹی کی پالیسی واضح ہے۔ جو ان الفاظ پر مشتمل ہے۔
1۔ گوادر پورٹ کا کنٹرول حکومت بلوچستان کے حوالے کیا جائے۔
2۔ بلوچ قومی تشخص کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
3۔ نوکریوں، ٹھیکوں میں گوادر اور بلوچستان کے عوام کو ترجیح دینا۔
4۔ پورٹ کی آمدنی میں بلوچستان کو حصہ دینا۔

یہ تاثر غلط ہے، اس سے قبل بھی میں اس کی تردید کرچکا ہوں۔ سی پیک کے کسی معاہدے پر میں نے دستخط نہیں کی ہے، یہ سیاسی پروپیگنڈہ ہے جس کو تاریخ خود رَد کردے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں، گورنر بلوچستان اور بلوچستان کے تمام پارٹیوں پر مشتمل وفد جس میں بی این پی (مینگل) کے ثناء بلوچ، مسلم لیگ، پی ٹی آئی ارکان چائنا گئے لیکن اس میں معاہدہ اور سی پیک کی سیکورٹی کا مجھ سے کیا تعلق، یہ صرف معلوماتی دورہ تھا۔