صحافتی آزادیوں پر نظر رکھنے والی امریکی تنظیم فریڈم ہاؤس کی 2019ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان جمہوری، سیاسی، مذہبی، سماجی اور اظہار رائے کی آزادی کے لحاظ سے دنیا کے ایک سو ملکوں میں سے 39 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان آزادی،سیاسی حقوق، شہری آزادیوں کے حوالے سے جزوی طور پر آزاد ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری،تاہم پاکستان کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، جس کا مقصد مبینہ طور پر پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کو کامیاب کروانا تھا، جب کہ انتخابات سے قبل سیاسی بنیادوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں اور قائدین کے خلاف مقدمات بنائے اور چلائے گئے۔
ساتھ ہی عدالتوں اور ذرائع ابلاغ پر فوج کے مبینہ اثر و رسوخ میں اضافہ دیکھا گیا۔سیاسی جماعتوں کو ذرائع ابلاغ تک مساوی رسائی حاصل نہیں تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی نوعیت کا مبینہ جوڈیشل ایکٹوازم مسلم لیگ ن کے رہنماوں کے انتخابی میدان سے باہر رہنے کی وجہ بنا ۔ جبکہ ذرائع ابلاغ پر دباو اور مداخلت کی حکمت عملی نے مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کو عوامی توجہ سے محروم رکھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو ہزار اٹھارہ کے دوران میڈیا زوال کا شکار رہا ۔ جیو اور ڈان جیسے اداروں کو عارضی بندش کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں کو سینسرشپ اور ملکی اداروں کی طرف سے دباو اور ہراساں کرنے کے واقعات کا سامنا رہا۔
رپورٹ کے مطابق پشتون تحفظ تحریک کی پر امن سرگرمیوں کو روکنے کے لئے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کو استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں دو ہزار اٹھارہ کے انتخابی عمل کے دیگر مسائل میں خواتین کے ووٹر لسٹوں میں اندراج میں مشکلات، احمدی کمیونٹی کے لئے غیر مسلم اقلیت کے طور پر ووٹر لسٹوں میں اندراج کروانے کی شرط اور امیدواروں کی نامزدگی کے لئے مبہم اخلاقی شرائط کا ذکر کیا گیا ہے ، جن کی وجہ سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں، جہاں جنگجو گروپ اور قدامت پسند روایات کی وجہ سے خواتین کم ہی قائدانہ پوزیشن حاصل کر پاتی ہیں، خواتین کے ووٹوں کا تناسب کم رہا۔
رپورٹ میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر سخت سیکورٹی انتظامات انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں معاون نہیں بلکہ اس میں حائل ہوتے نظر آئے۔جبکہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سویلین حکومت خود کو فوج کی ترجیحات کے ساتھ زیادہ منسلک کرتی دکھائی دی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی قیادت کرپشن کیسز کا سامنا کرتی رہی۔
رپورٹ کے مطابق،تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی تنظیمیں اور اعلی تعلیمی ادارے پبلک پالیسی کے کئی پہلووں پر زندہ بحث و مباحثے کا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں،لیکن پاکستان میں بلوچستان کی صورتحال، لاپتہ افراد کا مسئلہ، افغانستان اور بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سرگرم بعض گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کے طاقت کے مراکز سے روابط پر بحث کرنا ممنوعہ موضوعات میں شامل رہے۔
رپورٹ میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ پچھلے دس سال میں پاکستان میں بائیس صحافیوں کو قتل کیا گیا اور ان کے قتل کے زمہ داروں کو اب تک سزائیں نہیں مل سکیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی ضمانت بھی ملک میں امتیازی قانون سازی ، سماجی اونچ نیچ اور فرقہ واریت کو نہیں روک سکی۔ ہندو اقلیت اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کی شکایت کرتی رہی ۔ عیسائی اقلیت توہین مذہب کے الزامات کے خدشے میں مبتلا ہیں، جو کسی بھی معمولی تنازعے سے شروع ہو کر مجرمانہ حملوں اور ہجوم کے ہاتھوں تشدد کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی رہائی کا زکر ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی کے باوجود عوامی رد عمل کے خطرے کے پیش نظر انہیں دو ہزار اٹھارہ کے آخر تک ان کی حفاظت کے لئے نا معلوم مقام پر رکھنا پڑا ۔
فریڈم ہاوس کی رپورٹ میں احمدی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک کی مثال کے طور پر ماہر معیشت احمد میاں کی وزیر اعطم پاکستان کی معاشی ٹیم کے رکن کے طور پر نامزدگی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید مخالفت کے بعد برطرفی کو پیش کیا گیا ہے۔