مشتر معنبر ریحان
تحریر: سمعیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہید ریحان جان وطن کے ایک شجاع سپاہی ہونے کے علاوہ ایک وفادار دوست، نہایت مہربان اور صادق انسان بھی تھے۔
ریحان جان کے بارے میں جتنا بولوں کم ہوگا کیونکہ ریحان کی داستاں چند سطروں میں بیاں نہیں کی جا سکتی۔ ان کے بارے میں لکھنے میں شاید کئی عرصے لگ جائیں۔ لوگ شائد ریحان جان کو مادر وطن کے ایک وفادار اور دلیر سپاہی سے جانتے ہونگے لیکن آج میں اُس ریحان سے آپکو واقف کروانا چاہتی ہوں، جس کو صرف شاید اسکے قریبی دوست ہی جانتے تھے۔
میں سمعیہ بلوچ خضدار کے علاقے توتک سے تعلق رکھتی ہوں۔ 18 فروری 2011 کو جب توتک میں فوجی آپریشن ہوا، تو وہ دن ہمارے زندگی کا یوم سیاہ بن گیا، جہاں فورسز نے میرے کم عمر چچا نعیم جان قلندرانی جن کی عمر صرف 17 سال تھی ایک رشتہ دار یحیٰ بلوچ سمیت شہید کردیا اور میرے دادا سمیت علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کو اغوا کیا گیا، جن میں سے کچھ لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں تو ملیں، مگر باقی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اس حادثے نے میری اور میرے خاندان کی زندگی کو جہنم سے بھی بدتر بنا کر رکھ دیا، ہم اس حادثے کے بعد بہت ہی بڑے صدمے میں تھے، جس سے نکلنا امکان پذیر نہیں تھا اور اسی دوران میری زندگی میں قدرت الٰہی کی طرف سے ایک ایسا تحفہ دوست کی شکل میں ملا جس کا نام ریحان تھا، جو انسان کے شکل میں ایک فرشتہ تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ دوستی رشتے میں بدل گئی اور وہ میری زندگی سے جڑ گیا اور میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔
میں اُس فرشتے کی داستاں کیسے بیاں کروں کہ میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں اُنکی توصیف میں۔ آغاز وہیں سے کرتی ہوں، جب ہماری زندگی کے سب سے اہم فیصلے کا موقع آیا اور یہ ہماری زندگی کی ایک نئی شروعات کا لمحہ تھا، جہاں ہم ایک رشتے میں باندھے جانے والے تھے۔ بڑوں اور بزرگوں کے فیصلے کے بعد ریحان جان نے میری رضا جاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور یہ واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جس سفر پہ ہم نکلے ہیں، وہاں زندہ رہنے کا میں کوئی قسم نہیں کھا سکتا اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنے کا کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کر سکتا اور شاید میں تمہیں وہ زندہ گی نہیں دے سکوں گا جو ہر ایک عام انسان کو ملتا ہے کیونکہ اس سفر میں ہم بحیثیت سپاہی اور محافظِ وطن ایک عظیم جنگ لڑ رہے ہیں، جہاں موت ہی ہمارا سب سے نزدیکی ساتھی ہے۔ اور آخر میں یہ کہا کہ کیا ان سب کے باوجود بھی تم میرے زندہ گی کا حصہ بننا چاہتے ہو؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا تم بھول گئے کہ ہمارا مقصد ایک ہے؟ میں بھی اسی مقصد کا حصہ ہوں؟ اور اس کم طویل زندگی میں ایک دوسرے کا ساتھی بنے؟
جب ریحان میرے زندہ گی کا ساتھی بن گیا تو میں اسکے ہر معاملے میں فکرمند ہونے لگی۔ ریحان ایک ایسے جفا کش انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کی بیشتر اوقات لوگوں کی خدمت میں گذار لی۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر مہمانوں کی خدمت میں لگ جاتا تھا۔ اُسے کھانے پینے کیلئے وقت نہیں ہوا کرتا تھا، رات دیر تک کام کرنے میں مصروف رہتا تھا اور اتنا تھکنے کے بعد بھی کبھی پر سکون نیند سونے کی تلاش میں نہیں تھا۔
ایک اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ریحان جان ایک اچھا بیٹا بھی تھا، جن کا سورج اپنے والد کو دیکھنے سے پہلے طلوع ہی نہیں ہوتا تھا، وہ اپنے والد کے نقش قدم پہ چلنے والے سب سے پہلے انسان تھے، جنہوں نے کم عمری میں وہ ساری زمہ داریاں بہت ہی ایمانداری سے نبھائے جو ایک عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ان کی والدہ لّمہ یاسمین کے مطابق وہ ایک ایسا انسان تھا، جس نے بچپن سے لیکر آخری وقت تک اپنے خواہشات کو دفنا کر رکھا۔ اور جب میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ تمہاری وہ کونسی خواہش ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہے؟ تو اُس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتا جو کوئی پورا نہ کر سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔