قومی سوال اور بلوچ نوجوان
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی قوم کے لیے اسکے نوجوان ہی ریڑھ کی ہڈی مانے جاتے ہیں، دنیا کے تمام انقلاب خواہ وہ کسی بھی نظریئے کے تحت لائیں گئے ہوں ان میں نوجوان طبقے کا بنیادی و کلیدی کردار رہا کیونکہ قوموں کی آزادی و قومی سوال کا دارومدار اسکے نوجوان طبقے کے سیاسی شعور و سیاسی حکمت عملی پر منحصر ہوتا ہے، آج کی دنیا میں جہاں قوموں کو براہ راست غلام بنانا اور انکی قومی وجود کو طاقت کے ذریعے مسخ کرنا شاید اس بدتہذیب دنیا کے منہ پر تمانچہ ہو یہاں بدتہذیب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ عالم آج اپنی تہذیب بھلا کر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔
ہمارا سیاسی شعور کہ ہم کتنے بالغ ہیں یا شعوری طور پر اپنے نظریئے پر پختگی سے عمل پیرا ہیں؟ کیا آج ھم جس نظریئے کی بنیاد پر تحریک کو روح بخش رہے ہیں، ھم اس نظریئے کے نظریاتی پہلوؤں سے واقف ہیں؟ آج کا نوجوان قومی سیاست کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ یہ تمام سوالات، جو سوالات در سوالات جواب در جوابات کے عمل سے گذرتے ہیں، کیا ھم اس عمل کے لیے تیار ہیں؟
تمام سماجی اداروں سے لیکر تعلیمی اداروں تک کیا ھم اپنی قومی ساخت کو مضبوط کرنے کے لیے عملی میدان میں اتر چکے ہیں، آج سامراجی طاقت اپنے مہلک ہتھیار استعمال کرنے سے کتراتا ہے کہ اسکے بھونکنے سے شاید پڑوس کا کتا نہ جاگ جائے، تو اسکے لیے یہ امر لازمی ہے کہ وہ جنگ میں خاموشی سے خلل پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ اس عمل میں کامیاب بھی ہے، آج تعلیمی اداروں میں قومی سوال اٹھانے والے دشمن پہ قلم کے ذریعے کاری ضرب لگانے والے اپنی قوت کو کہاں صرف کررہے ہیں؟ آج جو غیر سیاسی گہما گہمی دیکھنے کو آرہا ہے کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایک پیادے کو استعمال کرکے ہمیں بھونکنے دیا جارہا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں ہے، کیا ایک پیادے کے پیچھے بھاگ کر ھم اپنے سیاسی حکمت کو نقصان نہیں پہنچا رہیں؟ لگتا تو یہی ہے کہ سامراج ایک ایسا گیم کھیلنا چاہتا ہے جہاں کمزور ذہن کے لوگ مستقبل کی پیشن گوئی میں قومی سوال کو نسلی سوال بنا کر پیش کرسکیں۔
مگر آج کے سوشل میڈیا میں ہمارا کردار جو کہ علمی و سیاسی ہونا چاہیے مگر شاید نہیں ہے، کیا ھم عطاء الحق قاسمی کی طرح سیاسی طنز ومزاح میں عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں یا مارکس کو گجرانوالہ کا کہہ کر بلوچستان کے قومی سوال کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت تو یہی لگ رہا ہے، مگر یہ سب کیوں؟ کیا سامراج آج بھی اس بلوچ نوجوان سے ڈرتا ہے یا اسے اس بات کا خوف ہے کہ وہ کہیں نا کہیں بلوچ و بلوچستان کی دعویداری نہ کر بیٹھیں؟ چلو اس بات کو ایک طرف رکھ کر ذرا اپنے آپ پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آج ہمارا پوزیشن کیا ہے؟ ھم تاریخ کے کس دھانے پہ کھڑے ہیں اور کن نعروں کے ذریعے خود کی اجتماعی طاقت کو مضبوط کرنے کے بجائے منتشر کرنے پہ تلے ہوئے ہیں؟ حال ہی میں چند دانشور حضرات وارد ہوئے ہیں انکا ذرا جائزہ لیں تو کیوں نہ کچھ سیکھنے کو مل جائے، مگر شاید آج کے نوجوان کے لیئے سیکھنا معنی نہیں رکھتا بلکہ مراعات معنی رکھتا ہے۔
اوپر اٹھائے گئے سوالات شاید بے نظیر ہوں، چلو ذرا اپنے اجتماعی طاقت کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں ایک جانب بلوچ جہد عالمی میڈیا میں اپنا ایک مقام بنا چکا ہے، آج آدھی دنیا یہ دیکھ رہا ہے کہ بلوچ اپنے بقاء کی جنگ میں مصروف اپنے شناخت کی جنگ میں ایک ایٹمی طاقت سے نبردآزما ہے، وہیں ایک جانب سامراج اس بات سے پریشان ہے کہ یہ جو فیول مل رہا ہے قومی تحریک کو اسے کیسے روکا جاسکے؟ تو کیوں نہ خود پیادہ رکھ کر نئے سیاسی ایجنڈے دیے جائیں کہ انکا شعوری پختگی اپنے نظریہِ پر کتنا ہے؟ آج شاید سامراج ان طنز نگاروں کو دیکھ کر ہنس رہا ہوگا کہ انہوں نے گیم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، البتہ اپنے فکر کو زیادہ وضاحت سے یا بیان بازی سے واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں آج ایک شوانگ جو ہتھیار اٹھائے قومی محاذ پہ موجود ہے مارکس ازم سے فیمنزم سے کوئی سروکار نہیں، وہ تو ان الفاظ سے ہی واقف نہیں اسے بس اتنا معلوم ہے کہ اسکا قوم غلام ہے، اسکے باپ دادا کی زمین داؤ پر لگا ہے، اسکا حفاظت کرنا اسکا اولین فرض میں شمار ہوتا ہے، اسی فرض کو پورا کرنے کے لیئے شاید وہ دنیا و مافیا سے بے غرض ہوکر اپنے جہد کو آگے لے جانے کے لیئے کوشاں ہے اور وہ کامیاب ضرور ہوگا کیونکہ قومی آزادی کو اس نے اپنا ایمان بنا رکھا ہے۔
وہیں دوسری جانب ہم پڑھے لکھے جاہل بیٹھے ہوئے ہیں، جو اپنے قومی طاقت کو مضبوط کرنے کے بجائے زیادہ کمزور کرنے کی نادانستہ کوشش کررہے ہیں، آج ہمیں قومی سوال کا نہیں پتہ کہ ہمارا قومی سوال کیا ہے؟ اور آج کے تناظر میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے، البتہ یہ سوچنے سے کیوں وقت ضائع کریں، چلو فیسبکی سیاست کرتے ہیں اور اپنے فالورز میں اضافہ کرنے کے لئے نئے سامراجی ایجنڈوں پہ سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ سیاست تو بیان بازی تک محدود ہوچکا ہے، عام ممبر کو یہ تک معلوم نہیں کہ اسے اپنے تحریک کو کن ذرائع سے مستحکم کرنے کی کوشش کرنا ہے یا ایک سیاسی کارکن کو یہ معلوم نہیں کہ اس سیاسی و شعوری کارواں کو آنے والے نسل کے آسان تر کرنا ہے تو کیسے؟ کیونکہ ہمیں جو دکھایا جاتا ہےbeing a opportunist اسی پہ اپنی طاقت لگانے کی کوشش کریں، نیونوآبادیاتی نظام نے ہمیں اپنے ہی طرح عمل کرنا سکھایا ہے اور ھم اس میں specialist بھی بن چکے ہیں کیونکہ غور و فکر جو ایک سیاسی کارکن کے لئے بنیادی ہتھیار ہے، اس کے استعمال سے ناواقف ہیں اور یہ سامراجی سیاست کے طریقوں سے بس زندہ آباد اور مردہ آباد کرنا ہی سیکھا ہے اور blind worker ہی پیدا کرنا ہے تو کیوں نا عقائد کا سہارہ لے کر عالمی طاقتوں کا آلہ کار بن جائیں، کچھ ہاتھ آئے نہ آئے ڈالر تو ملیں گا اور شہادت کا رتبہ الگ سے۔
ہماری بدقسمتی ہہی ہے کہ اس ستر سالہ جہد میں ایک لیڈر ہی پیدا کرسکیں اور حیف کہ اس لیڈر کی قیادت میں ایک شوانگ کو چلتے دیکھا مگر ھم آج بھی اس کی جہد سے ناواقف ہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔