شہید چیئرمین فتح کی شہادت اور یوم شہداء – نوروز بلوچ

392

شہید چیئرمین فتح کی شہادت اور یوم شہداء

تحریر: نوروز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب 13 نومبر آتی ہے تو یقیناً شہداء کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے کیونکہ 13 نومبر کو شہداء کا دن منایا جاتا ہے، اس دن کو ہم اپنے تمام شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کرکےان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور انکے لیئے دعا کرتے ہیں اور کوشش یہی کرتے ہیں کہ انکے نقش قدم پر چل کر انکے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

13 نومبر آتے ہی مجھے مہربان سنگت شہید چیئرمین فتح کی شہادت یاد آنے لگی کیونکہ شہید فتح بلوچ ایک بہادر مخلص اور ایماندار ساتھی تھا اور اسکا کردار اور باتیں بھلانے سے بھی نہیں بھلائے جاتے، وہ اکثر دوستوں کو ستایا کرتا تھا اور دوستوں کے روٹھ جانے پہ انکو منایا کرتا تھا۔

ایک دن سب دوست وتاخ میں بیٹھے تھے چیئرمین ہر دن کی طرح ایک سنگت کو چھیڑ رہا تھا اور جس سنگت کو چھیڑ رہا تھا وہ پہلے سے کسی وجہ سے پریشان تھا اور چیئرمین کو پتہ نہیں تھا کہ وہ پریشان ہیں، تو چیئرمین کے چھیڑنے سے وہ سنگت آپے سے باہر ہو گیا اور چیئرمین کو برا بھلا کہنے لگا، اس کے برا بھلا کہنے سے چیئرمین مکمل خاموش ہوکر انکی باتیں سنتا رہا، جب اس سنگت کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو چیئرمین اسکے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا سنگت تم تو اپنا بھائی ہو، تمہاری باتیں آنکھوں پہ اور بھی سنانا ہے سناو لیکن ایک بات قابل غور ہے ہم جتنا ایک دوسرے پہ غصہ کرتے ہیں اگر یہی غصہ دشمن پہ نکالیں جو کہ ہماری ماں بہنوں کے عزتوں پہ ہاتھ ڈال رہا ہے اور ہماری ماں بہنوں کا تذلیل کرکے انکو روڈوں پہ احتجاج کرنے پہ مجبور کر رہا ہے اور ہماری بھائیوں کو کئی کئی سالوں تک ٹارچر سیلوں میں بند کرتا ہے اور انکے ماں باپ اور چھوٹے چھوٹے بچے انکی راہ تکتے تکتے آنسو بہا بہا کے اس دنیا سے اپنے ارمان لے کر جا رہے ہیں، یہ باتیں سن کر سب دوست خاموش ہوگئے اور اس سنگت کو اپنے غلطی کا احساس ہوگیا اور شہید فتح بلوچ سے اپنی غلطی کی معافی مانگ کر اسکو گلے لگایا، اور انکے انکھوں سے آنسو نکل گئے، وہاں پہ میں نے اندازہ لگایا کہ چیئرمین تو واقعی چیئرمین ہیں، اسکا سوچ بہت بڑا ہے اور واقعی میں چیئرمین ہم سب سے بہت بڑے ہیں۔

چیئرمین اور سنگتوں کا شاہرگ میں ایف سی پہ حملہ:

چیئرمین کے شہید ہونے کے بعد ایک سنگت سے ملنا ہوا اور شہید چیئرمین کے بارے میں پوچھا اس سے تو اس نے کہا کہ جب شاہرگ ایف سی کیمپ کو ہم نے چاروں طرف سے گھیرا بندی کرکے ان پہ حملہ کیا تو ایف سی اہلکار اپنے اپنے مورچوں کے اندر رہ کر فائرنگ کر رہے تھے اور چیئرمین فتح میرے پاس تھا، کچھ منٹ گذرنے کے بعد اچانک میری نظر ایک سنگت پہ پڑا کہ وہ اکیلا فائرنگ کرتے کرتے ایف سی کیمپ کے قریب تک پہنچ گیا اور ایف سی اہلکار اسکو دیکھ کر اتنے بے ایمان ہوگئے کہ اپنے اپنے مورچوں سے باہر نکل کر بھاگنے لگے، جب چیئرمین کی جگہ پہ دیکھا تو چیئرمین نہیں تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ چیئرمین ہی ہے اور چیئرمین ایک ایک کرکے انکے سارے مورچوں میں گرنیڈ گرا کر تباہ کرتا گیا اور کچھ اہلکاروں کو جہنم بھی رسید کیا تو ہم سب سنگت ایک ایک کرکے انکے مورچوں میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ یوں چیئرمین کی وجہ سے شاہرگ حملہ نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ دشمن کے سارے سامان کو بھی ہم نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

چیئرمین کی شہادت کیسے ہوئی؟

ایک مشن پہ چیئرمین کچھ ساتھیوں سمیت گئے تھے اور ایک کام میں مصروف تھے کہ اچانک دشمن نے حملہ کیا، جب دشمن نے حملہ کیا تو چیئرمین اور انکے ساتھیوں کے ساتھ ایک کلاشنکوف اور 2 میگزین تھے اور دشمن نے انہیں چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا تھا جب دشمن نے حملہ کیا تو چیئرمین نے کلاشنکوف اٹھا کر سنگتوں کو نکلنے کا کہا کہ میں دشمن کو آگے بڑھنے سے روکتا ہوں، تم لوگ نکل جاو جب دوستوں نے جانے سے انکار کیا تو چیئرمین نے غصے میں آکر ساتھیوں سے کہنے لگا کہ اگر تم سب رکوگے تو ہم سب مارے جائینگے اس سے بہتر ہے کہ میں ان سے مقابلہ کرتے کرتے اپنا قربانی دوں کم سے کم تم لوگ تو بچ جاوگے، آپ لوگ نکل جاو ان سے میں نپٹ لیتا ہوں، جب ہم جانے لگے تو ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ہم نے چیئرمین کی آواز سنی جو کہ دشمن کو للکارتا ہوا انکے درمیان گیا اور دشمن پہ ٹوٹ پڑا دشمن پہ ٹوٹ پڑتے ہی دشمن کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئیں، چیئرمین قابض افواج کے درمیان اکیلا اور دشمن کے اہلکار سینکڑوں کی تعداد میں چیئرمین کے ساتھ ماں بہنوں کی دعائیں اور وطن کا جذبہ اور 2 میگزین ایک کلاشنکوف اور دشمن کے پاس ہر قسم کا ہتھیار بس انکے پاس اگر نہیں تھا تو بس ایمان نہیں تھا۔ چیئرمین آگے بڑھتا گیا جس طرف بھی اپنے بندوق کا منہ کرتا دشمن اہلکار ڈھیر ہونا شروع ہوتے، پورا علاقہ فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھا، جاتے ہوئے چیئرمین کی آخری بار ہم نے یہ آواز سنی کہ “مارو کتوں، بے ایمانوں کیوں نہیں مار سکتے ہو، کیوں تمھارے ہاتھ کانپ رہے ہیں، کیوں نہیں مار سکتے” اور یہ آواز سننے کے بعد ایک ہی گولی کی آواز ائی اور چیئرمین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگیا کیونکہ وہ آخری گولی چیئرمین نے اپنے نام کر کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا، یوں ایک مہربان ساتھی نے سب ساتھیوں کو زندگی دیکر اپنے آپ کو وطن اور قوم کیلئے قربان کردیا اور بہادری کی مثال قائم کردیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔