سرمایہ دارانہ نظام، سامراج اور سی پیک
تحریر: جیئند ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا جہاں میں شہرت کمانے والے سیاہ فام جنوبی افریقی رہنماء نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ” انسان ماں کے پیٹ سے دوسرے رنگ و نسل کے افراد سے نفرت نہیں سیکھتا بلکہ اسے نفرت سیکھائی جاتی ہے“ اگر انسانی اور سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تویہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نسل پرستی سرمایہ دارانہ نظام کی ایجاد کی ہوئی چیز ہے اور ان دونوں کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ دور قدیم میں یورپ سے تعلق رکھنے والے اقوام دوسرے براعظموں اور ان میں بسنے والے اقوام پر حملے کرکے ان کو اپنی سلطنتوں کا جبراً حصہ بناتے تھے ۔ ان حملوں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہوتا اور وہ معاشی تھا۔ حملوں کے دوران لاکھوں افراد مارے جاتے اور قبضوں کے بعد بھی مفتوحہ علاقوں کے مقامی لوگوں پر ظلم و ستم جاری رہتا تھا، اپنے ظلم و جبر کو جائز اور قانونی حیثیت دینے کے لئے سامراجی ریاستیں نسل پرستی کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے تھے، قبضہ گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے نام نہاد دانشور مقامی افراد اور اپنے لوگوں کو یہی باور کراتے تھے کہ مفتوحہ ممالک کے لوگ نسلی اور ذہنی حوالے سے کم ترہیں ۔ ان میں وہ صلاحیتیں نہیں کہ وہ اپنے ملک کا نظام خود چلاسکیں ۔ لہٰذا ہماری سرکار وہاں اس لئے گئی ہے کہ وہاں کے غیر مہذب افراد کو مہذب بنائیں اور ان کو ترقی و روزگار کے مواقع دیں۔ حکومت چلانا ان جیسے کم تر لوگوں کے بس کی بات نہیں اور یہ ہماری انسانیت کا جذبہ ہی جو ہم ان غیر مہذب لوگوں کے ملک انہیں ترقی اور روزگار دینے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں سامراجانہ نظام اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کی ایک شکل ہے سرمایہ دار کسی بھی شکل میں آسکتا ہے۔
برصغیر میں سامراج پہلے تاجر کی شکل میں آیا اور وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی تاجر ہندوستان کے حاکم بن گئے ۔ مقامی افراد کو حقیر ثابت کرنے کےلئے انہوں نے یہاں بھی نسل پرستی کا سہارا لیا فوج میں بھرتی ہندوستانی سپاہیوں کی تنخواہیں گورے سپاہیوں کی نسبت بہت ہوتی تھیں اور بڑے بڑے افسر اور اہم عہدوں پر وہ صرف گوروں کو ہی تعینات کرتے اور ہندوستانیوں کو نسلی اعتبار سے کم تر کہہ کر بڑے عہدوں سے دور رکھتے تھے۔ دوسرے جنگ عظیم کے بعد کہنے کی حد تک سامراجانہ نظام ہوگیا لیکن عملاً یہ غیر انسانی نظام ختم نہیں ہوا ۔ ماہر سیاسیات دوسرے جنگ عظیم کے بعدوالے ادوارکو نو آبادیات (Neo-colonialism)کہتے ہیں جو کہ استعمار( Colonialism)سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ معروف امریکی دانشور نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ Neo-colonialismکالونلزم سے کئی گناہ زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ Colonialدور میں محکوم یا مفتوحہ قوم کو اپنے دشمن کا پتہ ہوتا تھاجو اس پر براہ راست حکومت کرتا تھا لیکن Neo-colonialismکے دور میں دشمن براہ راست آپ پر حکومت نہیں کرتا بلکہ اپنے پراکسی کے ذریعے حکومت کرتا ہے اور اس دور میں اصل دشمن کوپہچانناعام بندے کی بس کی بات نہیں۔ دوسرے جنگ عظیم کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک سرمایہ دارانہ ممالک جن کی قیادت امریکہ نے کی اور دوسری کمیونسٹ ممالک جو سوویت یونین کے زیر اثر تھے۔
غریب سرمایہ دارانہ ممالک جو امریکہ کے اتحادی تھے وہاں امریکہ براہ راست حکومت نہیں کرتا تھا بلکہ وہاں جہموری نظام کو کمزور کرکے فوجی آمروں کے ذریعے حکومت کرتا تھا ۔جس کی مثال جنوبی امریکی براعظم کے ممالک ہیں۔ وہاں ہر فوجی آمر کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے اور وہ فوجی آمر اپنے ممالک میں ایسی پالیسیاں بناتے تھے جو وہاں کے مقامی افراد کی بجائے امریکی سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے مفاد میں تھیں۔ جب بھی جنوبی امریکہ کے لوگوں نے فوجی آمروں کے خلاف کوئی تحریک چلائی تو وہ امریکی ہتھیاروں او رامداد کے ذریعے کچل دی گئی اور صرف کیوبا میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں کامیاب انقلاب آیا ۔
امریکہ نے جنوبی امریکہ کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں یہی پالیسی اپنائی، وہاں بھی فوجی آمریت اور بادشاہت کو فروغ دیا اور مشرق وسطیٰ کے امریکی حمایت یافتہ بادشاہ اور فوجی آمر وہی پالیسیاں بناتے ہیں جو امریکی سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے مفاد میں ہوں۔ اس Neo-colonialismکے دور میں عام لوگ پہچان نہیں سکتے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے ؟ ان کے ممالک میں غیر جمہوری قوتیں یا ان کی سرپرستی کرنے والا امریکہ؟ 1945سے لیکر 1989تک امریکہ کی ان غیر انسانی اور استحصال پر مبنی پالیسیوں کو صرف سوویت یونین نے چیلنج کیا اور سوویت یونین کو کاﺅنٹر کرنے کےلئے امریکہ نے نئے طرز کے پروپیگنڈے کے جنگ کا آغاز کیا جو پرانے ادوار کے نسل پرستی سے ذراسا مختلف تھا۔ اس دفعہ سرمایہ دارانہ نظام نے نسل کی بجائے مذہب اور نظریہ کا استعمال کیا اورامریکی کمرشل میڈیا نے کمیوزم کو غیر مذہبی ، غیر جمہوری، عوام اور ترقی دشمن قرار دیا۔ امریکی اور مغربی میڈیا کا پروپیگنڈہ اتنا منظم تھا کہ اگر کسی کمیونسٹ ریاست بلخصوص روس سے کوئی فرد مغربی ممالک جاتا تھا تو وہاں کے لوگ اسے غیر مذہبی اور پسماندہ سوچ کا مالک سمجھتے تھے۔ یہ نسل پرستی کی نئی قسم تھی ‘بلآخر1989میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ” مردہ گھوڑے کو کوئی لات نہیں مارتا“ جس کا مطلب یہ ہے دشمن یا حریف جب اس حد تک کمزو رپڑجائے کہ آپ کو نقصان نہ دے سکے تو آپ اس پر دھیان دینا چھوڑدیتے ہو اور اپنی توانائی کمزور حریف پر ضائع نہیں کرتے۔ اس لئے1989کے بعد کمیوزم کے خلاف مغربی میڈیا نے پروپیگنڈہ چھوڑ دیا اورتیل و گیس سے لیس مشرق وسطیٰ پر اپنے قدم مضبوط اور اپنی بندوقوں کی صنعت کو جاری رکھنے کےلئے نئے دشمن ڈھونڈنے شروع کردیئے اور اپنے سے کئی زیادہ کمزور صدام حسین کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا اور Islamophobiaپھیلانے کے لئے اپنے دانشوروں اور میڈیا کی خدمات حاصل کیں۔
عین سرد جنگ(1989)کے ختم ہونے کے بعد سمیول ہنٹنگن نامی ایک امریکی لکھاری نے ایک ریسرچ جرنل کیلئے Clash of Civilizationکے نام سے ایک آرٹیکل لکھا، جس میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سرد جنگ کے بعد جنگیں معاشی اور سیاسی اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ ثقافتی وجہ سے لڑی جائیں گی۔ ان کے مطابق دنیا میں آٹھ ثقافتیں ہیں اور ان ثقافتوں میں ہمیشہ تضاد رہے گا اور سب سے بڑامحاذ اسلامی ثقافت اور مغربی ثقافت کے درمیان ہوگا کیونکہ یہ دونوں ثقافتیں طاقت کے اعتبار سے باقی چھ ثقافتوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور دنیا بھر کی اولین طاقت بننے کےلئے انکا آپس میں ٹکراﺅ ہوگا۔ ان کی اس آرٹیکل کو بائیں بازوں کے دانشوروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ معروف دانشور ایڈورڈ سیڈ نے ان کی آرٹیکل کا جواب اپنے آرٹیکلClash of Ignoranceمیں دیا ۔جس میں انہوں نے لکھا کہ سمیول ہنٹنگن کا آرٹیکل جہالت پر مبنی ہے اسلامک ممالک کے تقریباً تمام ممالک خود امریکہ کے اتحادی ہیں جیسا کہ سعودی عرب ،قطر، ترکی وغیرہ لیکن ہنٹگن جیسے معمولی نوعیت کے دانشور کے آرٹیکل کا مقصد علمی ہر گز نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا۔ ان کے آرٹیکل کو مغربی اور امریکی میڈیا نے کافی اہمیت دی اور مغربی میڈیا Islamophobiaپھیلانے پر گامزن ہوگیا ٹھیک اسی جس طرح وہ Communist Phobiaپھیلایاکرتاتھا۔ امریکہ کا مقصد نئے دشمن کا تلاش کرنا تھا تاکہ اس کی بندوق کی صنعت پر کوئی منفی اثر نہ پڑے جوکہ اس کا بڑا منافع بخش صنعت ہے۔ اسی لئے اُس نے ہنٹنگن کی بات کو صبح ثابت کرنے کےلئے عراق پر حملہ کردیا اور مغربی میڈیا خبروں ،ڈراموں اور فلموں کے ذریعے Islamophobiaکو مغرب میں فروغ دیتا رہا ۔امریکہ کے مقاصد ہر دور کے سامراج کی طرح معاشی تھے اورIslamophobiaپھیلانا جدید دور کی نسل پرستی تھی اب ماہر تعلیم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کا دھیان Islamophobiaسے ہٹ گیا ہے اور اب اس کو اصل ٹکر چین دے رہا ہے ۔
بیلٹ اور روڈ (BRI)کے پروگرام کے تحت چین سب سے بڑا معاشی طاقت بننے کا خواہشمند ہے او ربہت سے امریکی اتحادیوں کو توڑکر اپنے گروپ میں لانا چاہتا ہے کچھ روزقبل ہی امریکہ نے یہ بیان دیا تھا کہ سی پیک جو BRIکاایک اہم حصہ ہے۔ “یہ پروجیکٹ پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا یہ پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دے گا اورپاکستان کبھی بھی چین کو قرضہ واپس کرنے کی پوزیشین میں نہیں ہوگا ۔ سی پیک کا سارا فائدہ چین اٹھا رہا ہے اور آگے بھی چین ہی اٹھائے گا جس کی واضح مثال یہ ہے کہ چین پاکستانی مزدوروں کو روزگار بھی نہیں دے رہا بلکہ مزدور بھی چین اپنے ہی ملک سے لارہا ہے“
امریکہ کے چین مخالف بیان کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ ہے کہ چین اُس کا معاشی حریف ہے اور بعض ماہر تعلیم سمجھتے ہیں اب امریکہ اپنی تمام تر ترجیح Sinophobiaپر گامزن کرے گا جس طرح سرد جنگ کے وقت Communist Phobia پرکیا تھا اور سرد جنگ کے بعد اسلام کے خلاف کیاتھا۔ آنیوالے دور میں مغرب میں مسلمانوں سے نفرت کم اور چینیوں کے خلاف منظم میڈیا پروپیگنڈہ کے بعد نفرت زیادہ ہوگی۔ حال ہی میں ناروے میں جو افسوسناک واقعہ ہوا تھا ہوسکتا ہے آنے والے دور میں Mao Zedongکے پتلے جلائے جائیں۔ یہ بیان چین کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ کے آغاز کا اندیشہ ہے اور پاکستان کو آگاہ کرنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔ لیکن یہ بیان محض پروپیگنڈہ پر مبنی نہیں اس میں کچھ صداقت بھی ہے۔ چین کا رویہ بھی سامراجانہ ہے اس نے اپنے کمزور پڑوسی ممالک کے جزیروں اور سمندری حدودپر قبضہ کرلیا ہے South China Seaآج کے دور کا بڑا تنازعہ ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا کے قرضے کی رقم نہ ادا کرنے کے بہانے چین نے سری لنکا کے اہم پورٹ پر بھی پوری طرح قبضہ کرلیا ہے۔ South China Seaاور سری لنکا میں ”سامراج “پاکستان میں بھی سامراج ہی رہے گااور قرضوں کی رقم ادا نہ کرنے پر کل کو پاکستان کی اہم بندرگاہوں پر قبضہ کرسکتا ہے۔ اور دور قدیم کے سامراجی طاقتوں کی طرح چین کا میڈیا اپنے نہ جائز قبضے کو جائز قرار دینے کے لئے یہ پروپیگنڈہ بھی کرسکتا ہے پاکستان کے لوگ نا اہل ہیں اور نسلی اعتبار سے کم تر ہیں۔ وہ اپنا ملک خودنہیں چلا سکتے اس لئے ہم نے ان کا ملک ٹھیکے پر لیا ہے تاکہ وہ لوگ بھوک سے نہ مریں ۔ ہمالیہ سے اونچی شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی شاید کل کوچینی سامراجانہ اور سرمایہ دارانہ عزائم کے بھینٹ چڑھ جائے کیونکہ تاریخ یہی سبق دیتی ہے کہ سامراج یا سرمایہ دار کےلئے اس کے مفادات ہمالیہ سے بھی اونچے شہد سے بھی میٹھے اور سمندرسے بھی گہرے ہوتے ہیں ۔ لیکن افسوس پاکستانی حکمران سانحہ1971ءجس کو محض پچاس سال بھی مکمل نہیں ہوئے اس سے بھی کچھ سیکھ نہ پائے تو لہٰذا وہ سرمایہ دارانہ اور سامراجانہ نظام کی قدیم تاریخ کو یقیناٰ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔