دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 7 | دوسرا باب – عسکری تعمیر و تشکیل یا ڈھانچہ
”سن زو“ کی کتاب”جنگی فن“ کے اس باب کاعنوان ہے ”دشمن کے جنگی نقشے اور مقامی جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے عسکری ڈھانچے کی تدوین“ فوج اپنا یہ جنگی نقشہ دشمن سے جنگ شروع کرنے سے قبل ہی ترتیب دے دیتی ہے۔ سن زو کی جنگی نقشے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ جنگ کے دوران فوج کی صف بندی کی جائے یا جنگی نقشہ تیار کیا جائے لیکن ایسی حکمت عملی جنگ سے پہلے تیار کرلی جائے جو سہولت کی حامل ہو اس میں لچک ہو اور جنگی مہم کے دوران ضرورت کے مطابق جنگی نقشے کو تبدیل کرنے میں آسان اور حرکت میں بھی زیادہ سہولت کی حامل ہو۔
اگر جنگی قوت کے مظاہرے یا دشمن کے جنگی نقشے اور تمام جغرافیائی حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے فوجی ڈھانچے کی ترتیب پر بحث کریں تو نظر آئے گا کہ سن زو نے سہولت کی حامل ایسی جنگی ترتیب کیلئے کئی اہم شرائط لکھی ہیں جنہیں جنگ کے ابتدائی مراحل میں پورا کرنا ضروری ہے۔
1۔ فوج میں ماہر جنگی عملداروں کی تعداد زیادہ ہونی چاہیئے اور فوج کو اپنے دور کے بہترین ہتھیاروں سے مسلح ہونا چاہیئے۔
2۔ جنگ سے قبل اپنی فوج کی آسان نقل و حرکت کیلئے جغرافیائی طور پر نہایت آسان علاقے کا انتخاب کرنا ضروری ہے جس میں جنگی نقشے کے مطابق فوج کو ترتیب میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
3۔ فوج کو نہایت اعلیٰ قسم کی تربیت دی جائے اور حوصلوں کو ہمیشہ بلند رکھا جائے۔
4۔ فوجی کمانڈر کو اعلیٰ فکر کا حامل‘ کسی فوری مسئلہ کا سامنا کرنے کی صلاحیت اور حملے کے دوران مناسب وقت سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت کا حامل ہونا چاہئے۔
جنگ میں فوج کی تشکیل و تعمیر یا ڈھانچہ بنانا پیدائشی یا فطرتی عمل نہیں ہے بلکہ یہ کسی کمانڈر یا عسکری لیڈر کی صلاحیت اور قابلیت پر منحصر ہے کہ وہ جنگوں یا لڑائی کے دوران حاصل شدہ نتائج‘ تجربات اور مشاہدات کو حکمت عملی اور جنگی حربوں کے طور پر کیسے استعمال کرتا ہے!
اس معاملے میں سن زونے درج ذیل باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے:
رواں جنگ کے دوران فوجی قوت کولڑنے کا حکم دیتے وقت دانشمندی سے کام لینے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک بھاری اور گول پتھر ہزاروں فٹ کی اونچی پہاڑی سے تیزی کے ساتھ کھسکتے ہوئے نیچے آتا ہو…… وہیں پہاڑوں سے بہتی ہوئی ندیاں بڑے گول پتھروں کو تیز رفتاری کے ساتھ اس لئے نیچے پھینک دیتی ہیں کہ ندی کی رفتار تیز ہوتی ہے …… ایک باز جھپٹ کر اپنے شکار کو توڑ دیتا ہے کیونکہ اس کا حملہ انتہائی تیز رفتار اور بروقت ہوتا ہے اسی طرح ایک کمانڈر کی نقل وحرکت میں انتہا درجے کی تیزی اور بالکل بروقت حملہ آور ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ایک عسکری کمانڈر کو ایک مشترکہ قوت کے ذریعے ہی فتح نصیب ہوتی ہے اور اسے زیادہ لوگوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے‘ وہ مناسب لوگوں کا درست انتخاب کرتا ہے جو موقع کا برمحل فائدہ اٹھالیتے ہیں‘ کمانڈر کو محض جنگی نقشہ ترتیب دینے میں ہی ماہر نہیں ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر مناسب جنگی نقشے اور ترتیب کو تبدیل کرکے مناسب جنگی نقشہ ترتیب دے پائے بلکہ اپنی فوج کے مختلف یونٹوں کو اپنے اپنے کاموں کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ سرانجام دینے کے بھی احکامات دے کیونکہ ایسا کرنے سے حملے میں تیز رفتاری اور شدت پیدا ہوگی۔
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ فوجی قوت میں برتر ہوتے ہیں اور ان کے پاس اپنے دور کے بہترین ہتھیار ہوتے ہیں وہی دشمن کے جنگی نقشے اور مقامی جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے جنگی نقشے کو مناسب انداز میں ترتیب دے پاتے ہیں لیکن یہ خواہ مخواہ ضروری بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہی ہو کبھی تویوں بھی ہوتا ہے کہ فوجی قوت میں کمزور کمانڈر اپنے دشمن کے جنگی نقشے میں تمام جغرافیائی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے جنگی نقشے کو زیادہ دانشمندی کے ساتھ مرتب کرلیتا ہے لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ اس کے پاس ماحول اور سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت اور لیاقت ہو۔
جنوبی چین کا ایک جانور جنگلی بلا ہے جس کی قدوقامت عام بلے جیسی ہی ہوتی ہے جو چیتے کی نسبت بہت کمزور ہوتا ہے لیکن وہ جب بھی چیتے کو اکیلا دیکھتا ہے اس پر حملہ کردیتا ہے‘وہ گلہری کی طرح تیز اور پھر تیلا ہے اور درخت پر شکار کے انتظار میں ہوتا ہے جب چیتا درخت کے نیچے سے گزرتا ہے تو جنگلی بلہ اچانک چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر دم کے نیچے چیتے کے مقعد کو اپنے تیز اور نوکیلے پنجوں سے بھنبھوڑ کر لہولہان کردیتا ہے‘ چیتا زور زور سے چنگھاڑتا اور اچھلتا کودتا ہے زمین پر لیٹنا شروع کردیتا ہے اور جنگلی بلا (Leopard Cat) تیزی سے جاکر درخت پر چڑھ جاتا ہے۔
کنگ پرندہ (King Fisher) کی قدوقامت 15 سینٹی میٹر ہوتی ہے‘ اس کے سبز رنگ کے پر اور نوکیلے پنجے ہوتے ہیں‘ وہ زیادہ تر پانی کی جھیلوں پر چکر لگاتا رہتا ہے۔ وہ جب مچھلی کو دیکھتا ہے تو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پانی میں غوطہ لگاتا ہے اور تیزی سے مچھلی کو جھپٹ لیتا ہے کبھی تو خود سے بھی بڑی اور بھاری مچھلی کو پکڑ لیتا ہے۔
سن زو کے خیال کے مطابق دشمن پر حملہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا جائے اور وار بروقت ہونا چاہئے۔ کارروائی میں تحقیق کی ضرورت چین کی تاریخ میں گھڑ دوڑ کا ایک قصہ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بادشاہ کی (QI) اور جنرل ”تی جے“ کے مابین گھڑ سواری کا مقابلہ ہوتاتھا۔ ”سن بن“ نے جنرل ”تینجے“ کو شرط جیتنے کیلئے ”کارروائی میں تحقیق“ کے اصول پر کام کا مشورہ دیا‘ اسے یقین تھا کہ ”تی جے“ اس تجویز سے شرط جیت جائے گا لیکن کیسے جیتے گا اس کا اسے علم نہیں تھا۔ جنرل تی جے ہمیشہ بادشاہ ”کی“ سے گھڑ دوڑ کی شرطیں رکھتا تھا لیکن ہمیشہ ہارجاتا تھا‘اس کا سبب یہ تھا کہ بادشاہ ”کی“ کے گھوڑے‘ اس کے گھوڑوں سے زیادہ اچھے تھے۔
بادشاہ ”کی“ کا بہترین گھوڑا ایک گھنٹے میں 45 لی یعنی 15 میل فی گھنٹہ دوڑ سکتا تھا اور تی جے کا بہترین گھوڑا 43 لی۔ کی‘ کے دوسرے نمبر کے گھوڑے کی رفتار 41 لی‘ فی گھنٹہ تھی جبکہ تی جے کے دوسرے نمبر گھوڑے کی رفتار38 لی تھی۔ کی‘ کے تیسرے نمبر گھوڑے کی رفتار 38 لی تھی اور تی جے کے گھوڑے کی رفتار 36 لی تھی‘ جنرل تین جے یہ کرتا تھا کہ اپنا بہترین گھوڑا ’کی‘ کے بہترین گھوڑے سے‘ دوسرے نمبر والا گھوڑا‘ اس کے دوسرے نمبر والے گھوڑے سے اور تیسرے گھوڑے کو ’کی‘ کے تیسرے گھوڑے کے ساتھ دوڑاتا تھا اور ہار جاتا تھا۔
”سن بن“ نے یہ بات سن کر اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے تیسرے نمبر گھوڑے کو ’کی‘ کے پہلے نمبر گھوڑے کے ساتھ دوڑائے جس میں وہ ضرور ہار جائے گا۔ دوسری شرط کیلئے جنرل تی جے کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے 34 لی والے بہترین گھوڑے کو ”کی“ کے دوسرے نمبر کے 40 لی کے رفتار والے گھوڑے کے ساتھ دوڑانے کیلئے میدان پر لائے تیسری شرط میں وہ اپنا دوسرا 40 لی رفتار والے گھوڑے کو ”کی“ کے تیسرے نمبر کے گھوڑے کے ساتھ دوڑائے جس کی رفتار 38 لی تھی۔ اس نئی کارروائی کے مطابق تی جے‘ تین میں سے دو شرطیں جیت گیا‘ اس لئے فاتح قرار دیا گیا۔
آج تک جنگ میں ”کارروائی میں تحقیق“ سے متعلق سوچا ہی نہیں گیا ہے اگر اس اصول کو عسکری سائنس کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ اپنی فوج کی صحیح صف بندی کرنا بھی ایک سائنس ہے۔
اچانک / فوری حملے کے عناصر:
دانشمند اور بہادر کمانڈر جنگ میں موقع کے مطابق نہایت تیز رفتاری کے ساتھ نقل وحرکت کرتا ہے اس کا محض فوج کی زیادہ تعداد پر ہی بھروسہ نہیں ہوتا ہے بلکہ دشمن کو شکست دینے کیلئے اسے اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں مثال کے طور پر دشمن پر اچانک حملہ آور ہوکر اسے حواس باختہ کردینا۔
چین کی تاریخ میں انقلاب کے مختلف ادوار سے وابستہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب جنگی حکمت عملی کی صورتحال کچھ کمتر ہوتی ہے تو دشمن پر اچانک زوردار حملہ کرنے کے باعث اسے شکست دی جاتی ہے لیکن یہ تمام باتیں کمانڈر کی فطری صلاحیت‘ موقع سے فائدہ اٹھانے اور حالات کی مناسبت سے فوجی تیز رفتاری کے معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔
1940ء کی دہائی کی کنگھوئابئیان (Qinvghua Bian) کی پہلی فیلڈ آرمی‘ینگمھی اوریو چئان کے محاذ اس کی مثالیں ہیں‘ اس کے علاوہ خشکی سے متعلقہ اور بھی کئی مثالیں ملیں گی جن میں درج ذیل باتیں ایک جیسی نظر آئیں گی:
1۔ فوج کی نقل وحرکت میں لچک اور جنگ میں مناسب مواقع کا شعور اور ان سے فائدہ لینے کی اہلیت۔
2۔ دشمنوں کو شکست دینے کیلئے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل دباؤ۔
3۔ فوج کی نقل و حرکت میں بے پناہ تیز رفتاری اور جنگ میں انتہائی قلیل وقت کا استعمال۔
4۔ ایک ہی حرکت میں دشمن کا خاتمہ۔
اور بھی کئی باتیں ہیں جن کے ذریعے فوج کے جنگی نقشے اور مقامی جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی عسکری ترتیب میں بہتری لائی جاسکتی ہے‘ مثال کے طور پر حالات سے متعلق چین کیلئے لوگوں کا مشہور مقولہ ہے کہ ”پہاڑی درہ پر بیٹھا ہوا اکیلا پہریدار دس ہزار لوگوں کو وہاں سے گزرنے سے روک سکتا ہے۔
“
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک آدمی دس ہزار آدمیوں سے لڑسکتا ہے لیکن اگر ایک آدمی ایک خاص اہم جگہ پر بیٹھا ہو تو وہ دس ہزار لوگوں کے حملے کو روک سکتا ہے۔
دشمن پہ اچانک زوردار حملہ کرنا بھی اس حکمت عملی سے تعلق رکھتا ہے ‘شمالی ہن(Han) گھرانے کے شہنشاہ گئانگ وو(GuangWu) نے ونگ منگ(Wang Mang) کی فوج کے اہم دستے پر فقط پانچ ہزار فوج کے ساتھ حملہ کیا اور اسے شکست دے دی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک عجیب مثال ہے۔
کمانڈر میں پہل کاری اوراچانک حملہ کرنے کی صلاحیت بھی اس کا ایک عنصر ہے‘ مثال کے طور پر مناسب موقع ملے تو پیشرفت آپ کریں اور دشمن کو ایک جگہ پر تھما رہنے پر مجبور کریں‘ دشمن کے کمزور حصے پر چستی اور پھرتی کے ساتھ حملہ کریں‘ کوشش کریں کہ ایسی جگہ پر کیمپ لگائیں جہاں سے جنگی میدان نظر آتا ہو۔
سن زو نے اس باب میں حالات کے مطابق فوجی نقل وحرکت‘ جنگی ترتیب وچال(Maneuvering) کا ذکر بھی کیا ہے کہ اپنی فوج کو جنگ کے میدان کے پاس ہونا چاہیئے اسی کے ذریعے دور سے ہی پتہ چل سکے گا کہ دشمن فوج میدان کی طرف بڑھ رہی ہے‘ آرام کررہی ہے یا تھک گئی ہے یا وہ بھوکی ہے تاکہ اس پر تازہ دم فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا جاسکے۔ دشمن فوج سے اس وقت احتراز کیا جائے جب اس کے حوصلے بحال ہوں اور اس پر اس وقت حملہ کیا جائے جب وہ سست اور کنگال ہوں اور گھر کی یاد انہیں ستاتی ہو‘ دشمن فوج کے ساتھ اس وقت نہ بھڑیں جب وہ بالکل ہی منظم انداز سے پیش قدمی میں مشغول ہو یا ان میں سفر کرتے ہوئے بھی جنگی ترتیب موجود ہو۔
نتیجہ:
سن زو کی‘ دشمن کے جنگی نقشے اور مقامی جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی فوج کی جنگی ترتیب سے متعلق‘ درج ذیل آراء ہیں۔
فوجی قوت اور مندرجہ بالا مذکورہ حکمت عملی کمانڈر کے تدبر سے تعلق رکھتی ہے‘ ایک بہترین کمانڈر کو سن زو کے ان اصولوں سے ضرور مزین ہونا چاہئے۔
”دشمن کا اچھی طرح جائزہ لیں اور اپنی قوت کا تجزیہ کریں تو آپ سو جنگوں میں سے ایک بھی نہیں ہاریں گے۔“
”دشمن پر اس جگہ سے حملہ کریں جہاں اس کے پہریدارنہ ہوں اور اس پر اچانک ایک دم حملہ آور ہو کر اسے پریشان کردیں۔“
”پیش قدمی اس طرح سے چھپ چھپا کر کریں کہ دشمن کو فقط تبھی پتہ چلے جب آپ اس پر اچانک جاکر حملہ آور ہوں۔“
”دشمن کی ایسی جگہ پر حملہ کریں جس سے متعلق دشمن کو یہ یقین ہوکہ وہ اسے بچاسکتا ہے۔“
ایک اچھے کمانڈر کو چاہئے کہ وہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ پیش قدمی کرے‘ جنگ میں پھرتی اور چالاکی سے کام لیتے ہوئے جنگی میدان میں اس کی فوج کے مختلف یونٹ نہایت تیز رفتاری اور بہادری کے ساتھ جنگ کریں۔
اچھا کمانڈر وہی ہے جو جنگ کا صحیح اندازہ کرسکے اور جنگی مہم کو آگے بڑھاسکے اور جنگ کیلئے ایسے مواقع حاصل کرے جس سے فوج کو لڑنے میں آسانی اور سہولت مل سکے۔
بہترین کمانڈر وہ ہے جوفوج کی کمی کا ازالہ علاقے کے جغرافیائی انتخاب سے کرے اور اپنی مختصر فوج کو ترتیب دے کر خود سے تعداد میں زیادہ لشکر کو شکست دے سکے۔ جنگ کیلئے کسی خاص علاقے کا انتخاب کیا جائے جہاں دشمن آسانی کے ساتھ ادھر ادھر حرکت نہ کرسکے‘ نہ وہ اپنی فوج کو ایسی خطرناک ترتیب دے جس سے فوج کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو‘ اگر ایک اچھے منتخب شدہ علاقے کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا جائے گا تو نتائج نقصان دہ اور خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔