تیرہ نومبر تجدید عہد کا دن – سلمان حمل

290

تیرہ نومبر تجدید عہد کا دن

تحریر: سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے تمام مظلوموں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو صاف طور پر ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مظلوموں نے قربانیاں دی ہیں، قید و صعوبت کے ساتھ ساتھ سر ہتھیلی پر رکھ کر قوم و وطن کیلئے شہادتیں دی ہیں۔ اور آج وہ قومیں آزادی و ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں۔ مگر ان اقوام نے اپنے ان شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے کیلئے ایک مخصوص دن رکھا ہے اور اس مخصوص دن میں قوموں کے تمام طبقہ فکر کے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر شہداء کی قربانیوں کو سلام کرنے کیلئے یکجاء ہوکر انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ شہداء کے مزاروں پر حاضری دینے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان والوں کے ہاں جاتے ہیں اور ان کے پیاروں کے قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہیکہ دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے جہاں تحریکیں بغیر رہنما کے کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہوں۔ مگر ان رہنماؤں کے ساتھ قدم بہ قدم تحریک کے کامیابی کیلئے بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔

جب ہزاروں کی تعداد میں قوموں کے جوان و پیر وطن پر قربان ہوتے ہیں تو ایک ایک کرکے انکے قربانیوں یاد نہیں کئے جاسکتے بلکہ ان تمام شہداء کے قربانیوں کو یاد کرنے کیلئے ایک مخصوص دن مقرر کرکے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ جس طرح ہندوستان میں آزادی کی خاطر جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں کو یاد کرنے کیلئے 30 جنوری کو یومِ شہداء مناتے ہیں اور اجتماعی طور پر شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

بلوچستان کی آزادی کی خاطر انگریز دور سے لے کر کالے انگریز (پنجابی) کے دور تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اور دے رہے ہیں اگر صرف حالیہ تحریک پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں ہزاروں کی تعداد میں شہدا کی طویل فہرست دستیاب ہوگا۔ اب ان قربانیوں کو ایک ایک کرکے یاد کرنے کیلئے بیٹھ جائیں تو سال کے بارہ مہینے اور بارہ مہینوں کے دن کم پڑ جائیں گے۔ تو اب کیا کریں ان شہدا کو یاد کرنا ہی چھوڑ دیں انہوں نے جس طرح ہمارے مستقبل کی خاطر اپنے سروں کو قربان کیا ہے انہیں بھول جائیں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان تمام شہدا کو یاد کرنے کیلئے ماضی میں طلبا رہنماؤں نے جس دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے تیرہ نومبر کو یومِ شہدائے بلوچستان کے طور پر منانے کا اعلان کیا تو کیوں نہ اِسی دن قوم کے تمام طبقہ فکر کے افراد طالب علم، سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے کارکن، مزدور، کسان، ٹیچر، ڈاکٹر، اور سوشل میڈیا اکٹیوسٹ یومِ شہدائے بلوچستان منائیں۔

اِس دن کی مناسبت سے ہم سب پر فرض ہیکہ جنہوں نے مادر وطن کی لاج رکھتے ہوئے اپنے سروں کو قربان کیا ہے انکو یاد کرکے ان سے از سر نو عہد و پیماں کریں کہ ان کے مقصد آزاد بلوچستان کی خاطر ہم بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور اپنے اپنے کام میں انتہائی ایمانداری سے کاربند رہیں گے۔

اور اسی دن شہدا کے تصاویر کو آویزاں کرکے انکے سامنے چراغاں روشن کریں۔ ان کے خاندان اور گھر والوں کے ساتھ یکجہتی کریں انکے عظیم مقصد سے روگردانی نہ کریں۔

جہاں بھی جیسے بھی ہیں اپنے ہر عمل سے پہلے خود سے سوال کریں کہ آیا ہم وطن کے ان شہدا کے ساتھ جنہوں بغیر کسی لالچ و خوف کے بغیر اپنے آپ کو قربان کیا ہے۔ ان کے ساتھ ناانصافی تو نہیں کررہے ہیں ۔ اور اپنے چھوٹے موٹے خواہشات اور ضروریات کے ہاتھوں شہدا کے مشن سے غافل نہیں ہورہے ہیں؟ ہم سے جانے انجانے میں سال بھر کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے جو شہدا کے روح کو ٹھیس پہنچائے تیرہ نومبر کو شہدا کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال لازماً خود سے کریں۔ اس سے ہم اپنے آپ کا اصلاح کرکے شہدا کے مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہونگے۔ شاید ہمارا یہی عمل شہدا کے قربانیوں کے ساتھ انصاف کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔