بلوچ قومی سوال کا بہتر جواب – سلمان حمل

840

بلوچ قومی سوال کا بہتر جواب

تحریر: سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

آج کل بلوچستان میں قومی سوال کو لے کر ایک بحث کا آغاز پھر سے زوروں پر ہے۔ اس سے پہلے بھی قومی سوال کو لے کر کئی مباحث دیکھنے کو ملے ہیں، جس سے راہیں متعین کیئے جاچکے ہیں۔ قومی مزاحمت سے بھی اس قومی سوال کا جواب تلاش کیا جارہاہے، مگر کچھ ساتھی قومی سوال کو کسی اور تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ تو سوچا کیوں نہ اسی مباحثے کو لے کر بلوچ قومی سوال کو قوم دوستی یا نیشنلزم کے ہی تاریخ میں نہ دیکھا جائے۔

اسی سوال کو لے کر اگر دیکھا جائے تو سولھویں صدی کے اواخر میں قومی سوال کا یہ بحث زوروں پر تھا۔ اسی دوران کچھ شعرا اور ادبا زور دے رہے تھے کہ لوگوں کو قومی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ وہ بہتر علم حاصل کرسکیں۔ اور لوگ مادری زبان میں بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اسی دوران شاعروں اور ادیبوں نے ثقافتی قوم دوستی پر زور دیا۔ مادری زبانوں کی اصلاح کی اور ادبی زبان کے طور مادر زبان کو آگے لے آئے۔ یہیں سے قومی سوال کا آغاز ہوا اور قومی سوال کو گہرائی سے مشاہدہ کرکے اسکی تشریح کی گئی۔ اسی دوران قومی ریاست کے ان سیاسی دعوؤں کو بھی بنیاد فراہم کی گئی اور لوگوں کا توجہ اس قومی ریاست کی طرف مبذول کی گئی۔

اس سے قبل بھی قومی احساس کی گواہیاں تاریخ میں موجود ہیں اور اس دفعہ قومی احساس کو ریاست کی جانب مبذول کیا گیا اور قوم دوستی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ وہ مرکزی ریاستیں جو جاگیردار اور مذھبی امراؤں کے تابع تھے قومی سوال نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔

سیکولر زندگی کی طرف اس قدم اول نے علم کے ساتھ ملکر فرقوں کے ساتھ تعلقات کو کمزور کیا اور قوم دوستی کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔

اس دوران قومی تحریکیں بھی مذھبی تحریکوں سے متاثر ہوئی اور جذباتی تپش کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ مگر جلد ہی اس جذباتی تپش پر قابو پا لیا گیا۔ عوامی اور انفرادی حقوق کو قوم دوستی کے ساتھ ملاکر بادشاہت کے مراکز کو جھنجوڑنا شروع کیا۔ بلآخر بادشاہ مجبور ہوگئے اور انہوں نے اپنا شناخت قومی نمائندوں کے نام سے ظاہر کیا۔

اب ریاست لوگوں کیلئے ایک قومی شناخت اور مادر وطن بن گیا تھا۔ اس سے پہلے لوگوں کے دماغوں پر جاگیردار، مذھبی لوگوں کا غلبہ تھا وہ زائل ہونا شروع ہوگیا۔ مگر اب بھی قوم دوستی کے نظریئے کو ترقی کے کئی مراحل طے کرنے تھے۔

17 ویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ کے لوگوں نے جدید قومیت کا مکمل اظہار کیا۔ انگلینڈ کے سائنسی روح نے سیاسی سوچ اور سرگرمیوں کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا۔
سائنسی سوچ نے امیدِ انسانیت کو اخلاقیات سے جوڑا اور بائبل کے قدیم اثر و رسوخ ختم کرکے لوگوں کو قوم دوستی کی جانب مائل کرنا شروع کیا۔ اس نئے پیغام نے نہ صرف انگلینڈ کے لوگوں کے ذہنوں پر اثر کیا بلکہ تمام انسانوں کو ایک نیا پیغام پہنچا دیا۔

شاعر جان ملٹن (1608- 74) کے نظر میں قومی آزادی کا جو خیال تھا وہ سب سے پہلے برطانیہ سے پھیلا۔ ” وہ مٹی کی ضرورت جو زیادہ سے زیادہ عمر جینے کیلئے ضروری ہے، اور زمین کے ترقی کیلئے دنیا کے کونے کونے میں قومی آزادی”۔ جان ملٹن کا یہ سوچ بجا ہے کہ زمین کو ترقی دینے کیلئے قومی آزادی لازم ہے۔

اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہی وہ جدید تصور تھا جس نے کہا کہ ” انسان کو کھوئے ہوئے آزادی کو حاصل کرنے کیلئے اپنے زمین کو حاصل کرنا ہوگا۔”

یہیں سے قومی سوال کا جو جواب ہے مل جاتا ہے۔ بعد میں قوم دوستی کے ساتھ دیگر نام بھی جوڑے گئے اور آج بھی جڑے ہیں، لبرل قوم دوست، بائیں بازو کے قوم دوست، ثقافتی قوم دوست، رومانوی قوم دوست، توسیع پسند قوم دوست، اور تو اور آج کل شہری اور نسلی قومپرستی کا بھی قوم دوستی میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس بابت پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔

مگر آج ہم بلوچ قومی سوال کو دیکھیں اور بغور مشاہدہ کریں تاریخ کو جھنجوڈ لیں ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر تجزیہ کریں تو قومی سوال کا بہتر اور جامع حل قومی ریاست کی بحالی میں ہے۔

یہ فی الحال قبل از وقت ہوگا کہ قوم دوستی کو دیگر نظریوں کے ساتھ جوڑ کر قومی سوال تلاش کی جائے۔ البتہ ان نظریوں پر وسیع علم اور تحقیق کرنا ہوگا جو قومی ریاست کی بعد از بحالی میں نظام کو بہتر چلاسکیں۔

اس وقت ہم سب کیلئے بہتر ہوگا ہم قومی سوال کو قومی ریاست کی تشکیل کے کوششوں میں تلاش کریں اور ایک قومی ریاست کے بحالی میں علمی اور عملی طور پر جد و جھد تیز کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔