بلوچستان کے مسائل
تحریر: ڈاکٹرعائشہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
امیر بلوچستان کے اصلی وارث بلوچ قوم کے مسائل
لاپتہ بلوچوں کا مسئلہ:
ہمارے بلوچ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی فورسزاورانٹیلی جنس ایجنسیوں کےہاتھوں لاپتہ ہیں، ان لاپتہ افراد میں کچھ ایسے شامل ہیں کہ انہیں دس بیس سال مکمل ہوچکے ہیں، پھر بھی وہ رہا نہیں ہورہے ہیں، جیساکہ ذاکر مجید، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ماسٹررمضان اور دیگر ایسےنوجوان ہیں کہ دس سال سے لاپتہ ہیں۔ ہم نے سارے اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ابھی تک ہمیں کوئی جواب نہیں مل رہاہے۔ ہر روز ہم اپنے لاپتہ افراد کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرکے ریلی نکال رہے ہیں، ہم نے پاکستان کے مختلف اداروں میں ایف آئی آر بھی درج کیئے، اپنے لاپتہ افراد کے حوالے سے کئی دفعہ ہم نے گزارش کیئے، کئی مائیں اپنے بیٹوں کیلئے انتظار کرکے راستہ دیکھتے دیکھتے ہی اپنا دم اور سانس توڑ کر اس دنیاسے رُخصت ہوچکے ہیں۔ جب بھی ہم پاکستان کے منسٹر اور فورسسز سے اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ بلوچوں کو بازیاب اور رہاکریں ان لوگوں کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ سارے لاپتہ افراد مجرم اور دہشتگرد ہیں، لیکن میں ان لوگوں کو یہ کہتی ہوں کہ دہشتگرد قرار دینا اتنا مشکل نہیں ہے، بہت آسان ہے لیکن آپ لوگ دہشتگرد اور مجرم ثابت کرکے قانون کے مطابق انہیں سزا دیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ ہمارے باتوں کو سُننے کیلئے تیار نہیں۔
اگر دہشتگردی کے حساب سے ہم دیکھیں پاکستانی فوج اور انٹیلجنس ایجنسیوں سے بڑھ کر دنیاکے کسی کونے میں بھی اور دہشتگرد نہیں اور پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ہرروز بلوچ اُٹھائے جاتے ہیں اور ہرروز ایک دو لاشیں پھینکی جاتی ہیں، یہ دہشتگردی نہیں اور کیاہے؟
ہم اپنے حقوق اور لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کرچکے ہیں اور کرینگے، ہم نے سترسالوں سے ظلم اور غلامی برداشت کرکے آرہے ہیں، ابھی ظلم انتہائی بڑھ چکاہے، ہم برداشت نہیں کرینگے، چھوٹے بچے اور طالب علموں کو اُٹھاکر دہشتگرد ٹہرانا بہادری نہیں بلکہ آپ لوگوں کی کمزوری اور ہار کی نشانی ہے، اس بات کے بارے میں آپ لوگوں کو خود پتہ ہے، ہم لڑکی اور عورت ہوتے ہوئے دلوں پر پتھررکھ کر سڑکوں پر نکل رہے ہیں، اپنے پیاروں کیلئے۔ ہمیں آپ لوگوں نے مجبور کیا ہے اور کبھی کبھی آپ لوگ کہتے ہو کہ ہمیں فخرہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن آپ لوگ اپنےحرکت اور کرداروں پر غور کریں کہ آپ لوگوں نےزندگی میں ایک ایسا اچھاکام کیاکہ جو اسلام اور قرآن مجید کے مطابق ہے؟ ہرگز نہیں صرف آپ لوگ باتوں کے مسلمان ہو، کاموں کےنہیں۔ کونسی اسلام کی کونسی حدیث اور قانون میں لکھاہے کہ گھروں میں چھاپہ مارکر عورتوں کو لات ماریں یا تشدد کریں؟
اسلام کے کونسی حدیث میں لکھا ہے کہ چھوٹے بچے اور بزرگوں کو بنا قصور اُٹھاکر لاپتہ کرکے ٹارچرسیلوں میں سزا دیں؟ آپ لوگوں کا مسلمانیت یہی ہے کہ آپ فخرکرتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں، جانور بے زبان ہوتے ہوئے جنگلوں میں دوسرے جانوروں پر اتنا ظلم نہیں کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے بلوچ اور پشتون قوم کے ساتھ کررہےہیں، کیوں اسلام کے نام کو خراب اور بدنام کررہے ہو آپ لوگ؟
پاکستان کے ائیرپورٹ میں اسلام اور طالبان کے نام سے دھماکہ ہوا، سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان شھید ہوگئے، پشاور کےاسکول میں دھماکہ ہوا، سینکڑوں چھوٹے بچے شھید ہوئے اورآپ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ لوگوں کواسلام کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کررہےہو، یہی ہے آپ لوگوں کی اصلیت اور مسلمانیت، بلوچستان اور پاکستان میں جتنے واقعات اور دھماکے ہوئے سب کا ذمہ دارپاکستان کی گورنمنٹ ہے کیونکہ باہر ممالک لوگوں کو اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آکر دھماکے کرکے واپس چلے جائیں۔
تعلیمی مسئلہ:
پاکستان کی طرف سےہمیں ایجوکیشن سسٹم دیا ہی نہیں گیا ہے، پھر بھی سازش کررہےہیں، پاکستانی لوگ ہمیں تعلیم سےدوراورمحروم کرنے کیلئے دن پہ دن روکنےاورتعلم سےدورکرنےکی کوشش کررہےہیں، گودار مقبوضہ بلوچستان کا حصہ ہے، پنچاب اوراسلام آباد کا نہیں ہے کہ پاکستانیوں نےچائنا کےساتھ بنا بلوچ قوم کو پوچھے گوادر کو بیچ دیا اورسی پیک بن رہاہے، بلوچستان میں، لیکن چائنا کی طرف سے تین چارہزاراسکالرشپ آچکےتھےطالب علموں کیلئےاورجتنےطالب علم چائنا میں اسکالر شپ کےذریعےچلےگئےان طالب علموں سےایک بھی بلوچستان کا بلوچ نہیں ہےکیایہ تعلیم ست دور کرنےکی ایک سازش اورکوشش نہیں ہے؟
اس اسکالر شپ کےعلاواہ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طالب علموں پر جمعیت اسلام کےنام پر تشدد کیا گیا، کیا یہ ایک سازش نہیں ہے جوکہ پاکستانی بلوچوں کیساتھ کررہے ہیں؟
ہمیں تعلیم سےدور کرنے کی کوشش کررہےہیں پاکستانی لوگ، پچھلےکچھ دنوں سے بلوچستاں یونیورسٹی کوئٹہ میں یونیورسٹی کی وی سی اورچند لکچراروں نے ملکر بلوچ اورپشتون طالب علموں کوحراساں اوربلیک میل کیاتھا، جوکہ اس کیس میں پاکستانی فورسسز، ایف سی بھی ملوث تھا۔ کیایہ ایک سازش نہیں ہے؟ تعلیمی اداروں کےاندرفوجی چھاونی بنائےگئے۔ پاکستانی فوجی یونیورسٹی آف بلوچستان اورمختلف اداروں میں چھاونی بناکر بھیٹتاہے، صرف اور صرف بلوچوں کوآنکھ دکھانےاورتعلیم سےدور کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں مورچہ اورچھاونی بناکر بیٹھتا ہے، وہ اسلئےتعلیم سےدورکرنےکی کوشش کررہاہےکہ تاکہ بلوچ انپڑھ رہیں۔ لیکن آج کل بلوچ کےہر بچے کو معلوم ہےکہ آپ لوگوں نےکتنا ظلم کیا۔
گیس کا مسئلہ:
گیس بلوچستان سے نکل رہاہے، پنجاب اور باقی جگہوں میں استعمال اور سپلائی ہورہاہے، ہم بلوچستان کے اصلی وارث بلوچ لکڑی کرکے جلاتے ہیں، پھر کھانا وغیرہ بناتے ہیں اور باقی پنجاب کے لوگ اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں گیس استعمال ہورہاہے، پھر کہتے ہیں کہ بلوچ دہشتگرد ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بلوچستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں، جنابِ والا آپ لوگوں نے کبھی بلوچستان کے لوگوں کیلئے سوچا کہ سونا، آئرن، تیل کوئلہ بلوچستان سے نکال رہے ہیں اگر باقی چیزوں کو دے نہیں سکتے، گیس دیں، کبھی سوچا بلوچستان کے دیہاتی لوگ اپنے لیئے لکڑی جنگلوں میں ڈھونڈکر گھر میں لاتے ہیں، کھانا بناکر اپنا وقت گذارتے ہیں لیکن کوئٹہ کے لوگ کہاں جاکر لکڑی لاتے ہیں؟ خودغرضی، ظالمی اور حق چھیننے کی بھی ایک حدہوتی ہے، آپ لوگوں کی طرف سے امیر بلوچستان کے عوام کو کیامل رہاہے لاش کے سوا؟
پانی کا مسئلہ:
اس جدید دور اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں ہم لوگ رسّی اپنے کندھوں پر باندھ کر کنویں سے پانی نکالتے ہیں، ہم لوگ پانی کیلئے بھی تڑپ رہے ہیں، آپ لوگوں نے کبھی ایسے مسئلوں پر غورکیا؟ سوچاکہ ہماری زندگی کیسے چل رہی ہے؟ یہ سب آپ لوگوں کی مہربانیوں کی وجہ سے ہے، ہم ہرچیز سے محروم ہیں۔
بلوچستان کے باقی علاقوں کو چھوڑ دو لیکن آپ لوگ گوادر کو سودا کرکے انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور سی پیک بنارہے ہو، وہاں کے لوگوں کو پینے کیلئے پانی نہیں مل رہاہے، آپ لوگوں نے یہ کبھی سوچا؟ بس ایک ہی بات کو دل میں بٹھایا کہ بلوچ دہشتگرد ہیں اپنے حرکتوں کو دیکھیں کہ آپ لوگوں نے کونسا انسانیت اور انصاف کاکام کیا؟ بلوچستان کے عوام کیلئے چند سرداروں کو اپنا غلام بناکر آپ لوگوں نے بلوچستان پر راج کرنے کا حکم دیا اور آپ لوگ خود بلوچستان کے مالی وسائل کو لوٹ رہے ہو۔
ستر سالوں سے ظلم ہماری قوم برداشت کرکے آرہے ہیں پھر ہمارا نام دہشتگرد ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔