ایران میں جاری کشیدگی
تحریر: کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
18دسمبر2010کو تیونس میں محمد بوعزیزی نامی ایک پھیری والی کی خودکشی سے شروع ہونے والی عرب بہار نامی انقلاب نے کئی ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا، لیبیا کے حکمران معمر قذافی کو عوام نے مار ڈالا، 14 جنوری 2011 کو تیونس کے صدر زین العابدین جو کہ 1987 سے تیونس پر حکومت کرتے آرہے تھے، اسے تخت سے اتار دیا، اور مصر کے صدر حسنی مبارک جو تقریبا تیس سالوں سے مصر پر مضبوط گرفت کے ساتھ حکمرانی کرتے آرہے تھے اور اس انقلاب نے اس کو بھی نہیں بخشا جسے 11 فروری 2011 کو اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑا اور حالت یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ مشرقی وسطیٰ کے ملک تیونس، مصر، یمن ، اور لیبیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا اور بحرین اور اومان کے بھی شہنشاہیں اپنے بربادی کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اسی لئے اس انقلاب کو عرب بہار کا نام دیا گیا کہ یعنی دنیا کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں سے آزادی مل رہی ہے۔
پچھلے ایک ہفتے سے پٹرول کے مہنگے داموں کے خلاف ایران میں جاری خونریز احتجاج (جس میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں ) حالانکہ اس احتجاج کی شروعات اگرچہ محمد بوعزیزی جیسے ایک شخص سے تو شروع نہیں ہوا ہے مگر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ احتجاج مصر اور تیونس کی طرح ایران کے موجودہ حکمرانوں کے لئے کوئی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے ۔
یقینا ان تمام چیزوں کا ادراک ایرانی حکمران بھی اچھی طرح رکھتی ہے اور ان تمام چیزوں سے نپٹنے کے لئے ایرانی حکمران نے احتجاج کو ختم اور منشتر کرنے کے لئے طاقت کے استعمال میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے اور انٹرنیٹ سروس کو بند کرکے صحافیوں کو احتجاجی مظاہروں کو کوریج نہ دینے کا پابند بنا دیا ہے۔ اور پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی مولانا فضل الرحمان کے دھرنے سے نپٹتے ہی ایران کا دورہ کرچکے ہیں اور مولانا بھی پلین بی کو استعمال کرکے روڈوں کو بلاک کرنے بعد گھر لوٹ گئے ہیں ۔ اور پاکستان میں ٹماٹر کے مہنگے داموں نے پاکستانی حکمرانوں کا خواب حرام کر دیا ہے تو اسی لئے شاہد پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید کا دورہ ایران کو اس احتجاجی مظاہرہوں سے نکلنے میں کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کرسکتا۔
اس خطے میں صرف پاکستان ہی ہے جس نے ایران کے ساتھ ڈائرکٹ دشمنی مول نہیں لیا ہے۔ انڈارکٹ سعودی اور پاکستان ایک ہی گاڑی کے مسافر ہیں تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت اس وقت اکثر عرب ممالک ایران کی بربادی کے لئے ہر وقت دعاگو رہتے ہیں اور موقعے کا انتظار کر رہے ہیں کب موقع آئے ہم ایران پہ چڑاھائی کرلیں اور ان تمام ملکوں کے پیچھے امریکہ ڈائرکٹ کھڑی تو ہے مگر ایران بھی اس وقت آبنائے ہرمز کے بل بوتے پہ پوری دنیا کو اپنے انگلیوں پہ نچارہی ہے اور یہ کہتا ہے جس کو جو کرنا ہے کرلیں۔
اگر ایران کے اندر ہی حالات ناساز ہوں تو آبنائے ہرمز نامی جن بھی ایران کو شاہد ان حالات سے بچا نہیں سکتا۔ اگر آبنائے ہرمز نامی جن نے ایران کو نہیں بچایا پھر اسی میں امریکہ اپنے بحری بیڑے کو کھڑی کرکے ایران کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے گا کہ آپ پیٹرول نامی جن سے اپنے آپ کو چھڑا لو اور یہ جن اب ہمارے کنٹرول میں ہے۔
اگرامریکہ نے عرب ممالک کے ذریعے ایران پہ چڑاھائی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تو ایرانی حکمران پہلی ہی فرصت میں دو رکعت نفل حاجت پڑھ ہی لے۔
امریکہ تو اس طرح کے موقعوں کے تلاش میں رہتا ہے کہ کہاں مجھے موقع ملے میں وہاں پہنچ جاؤں اور اس طرح کے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر ان پہ چڑھائی تو کرتا ہے واضع مثال ہمارے سامنے افغانستان ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے شاطر چالوں سے افغان جنگ کو شروع کیا تھا۔
امریکہ نے شطرنج کے اس چال کی طرح اپنے وزیر کو توپ کے ہاتھوں مروا کر پھر اپنے ایک پیادے کے ذریعے چیک دے کر اور پھر اسی سپاہی کو وزیر بنادیا۔
اگرچہ ایران میں جاری احتجاج میں ابوعزیزی جیسا کوئی کردار تو نہیں ہے تو مہنگے پیٹرول ابوعزیری کا کردار اچھی طرح نباہ سکے گا۔
اگر ایران میں اسی رفتار کے ساتھ احتجاج جاری رہا تو امریکہ کو یہاں اپنے وزیر کی قربانی تو نہیں دینی پڑیگی مگر امریکہ اپنے گھوڑے یا توپ کو مروا کر ایران پہ چڑاھائی کرنے میں دیر نہیں کریگا۔ اس خطے میں ایران امریکہ کا سب بڑا حریف تو ہے اور یہ موقع امریکہ اور سعودی کے لئے کوئی مال غنیمت سے کم نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔