یہ آنسو
تحریر۔ سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں ویسے تو ہزاروں کی تعداد میں خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ مگر کبھی ایسے خبر بھی پڑھنے کو ملیں گے جو انسان کی ضمیر کو جھنجھوڈ کر رکھتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تحریر کسی فلسفی کے قول سے، کسی دانشور کے الفاظ سے یا کسی کتابی حوالے سے لکھا کیا گیا ہوگا۔ تو میں آپ سے پہلے ہی معذرت چاہتا ہوں کہ یہ ویسا نہیں جیسا آپ نے سوچا ہے بلکہ یہ میرے وہ احساسات ہیں جو میں نے ماؤں کے ٹپکتے آنسوں کو دیکھ کر قلم بند کیئے ہیں۔ اس تحریر میں نہ میں نے الفاظ کا چناؤ کیا ہے اور نہ ہی کوئی حوالہ پیش کیا ہے بلکہ سیدھا سادہ اپنے احساسات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
جب انسان کے تمام آس، امید اور توقعات پر سے یقین اُٹھ جائے تو یقیناً آپ کو ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو زندہ رہ کر بھی زندگی سے غافل ہوتے ہیں۔ آج جب ذاکر جان کی ماں سڑکوں پر زار زار رو رہی ہے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بیٹے کی جدائی میں چیخ چیخ کر رو رہی ہے ۔ کیونکہ یہ وہی ماں ہے جس نے ذاکر جیسے نڈر رہنما کو جنم دیا اور قوم کیلئے وقف کیا۔ جی ہاں اُس ذاکر کی بات ہورہی ہے جس نے بلوچ ماؤں کے آنسو پونچھے اور ان کی آواز میں آواز ملا کر قدم بہ قدم ان کے ساتھ رہے۔ آج ذاکر جان کی ماں کمزور نہیں ہوئی بلکہ اس کی امید اس کی آس ہم پر سے اُٹھ گئی ہے۔ آج وہ ہمارے بیگانگی پر ہمارے غفلتوں پر ہمارے جان کر انجان ہونے کی کوششوں پر رو رہا ہے۔ وہ رو رہا ہے کہ ذاکر جو ہر وقت اس قوم کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتا رہا آج اُس ذاکر کیلئے احتجاج کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔
وہ ہم سے سوال کر رہا ہے کہ آج کیوں ذاکر جیسے ہزاروں نوجوان لاپتہ ہوکر دشمن کی اذیتیں برداشت کررہے ہیں اسی لیئے کہ وہ اس سماج کے ساتھ تھے، وہ اس سماج میں ہونے والے ہر ناانصافی پر بولتے تھے، چیختے تھے۔ اور پھر خود لُمہ اپنے سوالوں کا ہمیں جواب دے رہے ہیں کہ ہائِے افسوس آج اسی سماج کے لوگوں کی زبان پر آبلہ پڑ گیا ہے وہ حق کی بات کرنے سے کتراتے ہیں، کہ کہیں وہ بھی غائب نہیں کیئے جائیں۔ یہ آنسو جو لُمہ کی آنکھوں سے نکلے ہیں وہ ایک شگان اور طعنے کی مانند ہیں۔ جو لُمہ کی آنکھوں سے نکل کر ہمیں آدھ گلاس پانی میں ڈوب کر مرنے کیلئے کہہ رہے ہیں ۔ اگر ہم آج زندہ ہیں یا زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اسی سماج سے ہمارا تعلق ہے ہم اس سماج کے کسی بھی درد سے کسی بھی کرب سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
ماں کی آنکھوں سے آج آنسو اس لیے قطار در قطار ہیں کہ ان کے ساتھ احتجاج میں آج اتنے لوگ شامل ہوتے کہ ڈنڈا مارنے پر بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتا۔ مگر ان کے ساتھ احتجاج میں صرف چند ہی لوگ تھے جو اس درد میں اپنے آپ کو شریک سمجھ رہے تھے ۔
اُن ہم دردوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا جو انسانی بنیاد پر قومی بنیاد پر اس احتجاج میں شامل ہوتا اور اپنا قومی فرض نبھاتا تو اسی لیئے لُمہ زار زار رو رہے تھے۔ اور خاموشی سے سوال کررہے تھےکہ آج کہاں تھے وہ ادیب، آج کہاں تھے وہ شاعر آج کہاں تھے وہ اساتذہ، آج کہاں تھے وہ اسٹوڈنٹس آج کہاں تھے وہ سیاست دان ، آج کہاں تھے وہ بیروکریٹ آج کہاں تھے وہ لبرل اور ترقی پسند آج کہاں تھے وہ جو بلوچستان کے مسئلے کو عدم تشدد سے حل کرنے والے جب ایک ماں سرِ راہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اُسے تسلی دینے کیلئے بھی ایک ماں اور ایک بیٹھی موجود تھی جو خود اسی درد سے گذر رہے ہیں۔
ان آنسوں کی قیمت کا ادراک انہیں ہوگا جنہیں یہ آنسوں دِکھے ہیں۔ خواب خرگوش میں سونے والے ان آنسوں کے سیلاب سے بچ کر کہاں جائیں گے۔
ان عدم تشدد کے متوالوں اور سوشلسٹوں کو کونسے سانپ نے سونگ لیا تھا، جب ایک ماں کو ایک بہن کو ایک بھائی کو ایک بیٹی کو گورنر ہاؤس تک رسائی کیلئے پولیس نے انہیں سرِ راہ روکا تھا۔
افسوس کہ آج ان آنسوں کی قیمت ادا کرنے کیلئے اِیک ذاکر ہوتا اور ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڈ کر ہمیں اس احتجاج میں شامل ہونے کیلئے کہتا اور وہ پَسِ زندان ہیں۔
آج لُمہ کے آنسوں نے ہمیں یہ باور کرایا کہ ہم اجتماعی طور پر بہ حیثیت قوم اپنے ذمہ داریوں سے کس قدر غافل ہوگئے ہیں ۔ ہمیں صرف لفظوں کی دنیا میں زندہ رہنا پسند ہے۔ ہمیں ان ماؤں اور بہنوں کی درد سے کوئی تعلق نہیں جن کے چشمِ چراگ سرِ راہ اٹھائے گئے قتل کیئے گئے لاپتہ کیئے گئے۔
ہم میں اب وہ قومی سوچ اور بلوچیت نہیں رہا کہ ان ماؤں کے درد میں خود کو شریک سمجھیں اور شامل ہو جائیں۔ مگر لُمہ میں آپ سے ایک التجا کرتا ہوں کہ اپنے ان آنسوں کو بچا کے رکھنا کہ جب آپ ارد گِرد کسی کو بھی یہ احساس ہوجائے اور اور بے حسی کو ختم کرنے کیلئے خود سوزی کرے تو یہ آنسو آپ انہیں بچانے کیلئے استعمال کریں کیونکہ آپ ذاکر جان کے ماں ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔