کیا نواز عطا مجرم ہے؟
تحریر: ہونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں کوئی انہونی بات نہیں۔ ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو پاکستانی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر ریاست بلوچستان کے درالحکومت قلات پر چڑھائی کرکے بلوچستان پر قابض ہوا، پاکستان نے بلوچستان میں آکر انسانی حقوق کی پامالی کرکے بلوچوں کی آزادی چھین لیا، جو آج تک غلامی کی دردناک عزاب سے گزر رہے ہیں، پاکستانی فوج بلوچستان میں اس وقت ہر طرح کے جرائم اور کرائم میں ملوث ہیں، کیونکہ ایک قابض فوج کی فطرت میں شامل ہے وہ ہر وقت مقبوضہ ملک میں ہر طرح کے انسانی حقوق کو لگتمال کرتی ہے،ظلم وجبر کا قانوں لاگو کرکے خود کی من مانی کرتی ہے، طاقت کےگھمنڈ کی فطرت کو ایک چیز ختم کرتی ہے وہ ہے قابض کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنا اور اس میں پسے ہوئے لوگوں کوطاقت بن کر دنیا کے سامنے ابھریں تو کچھ نا کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے، اس بات سے ہمیں اور دنیا کو باخبر ہونا ہوگا طاقت اور یکجہتی کے بغیر پسے ہوئے لوگوں پر جبر و ستم کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ کمزور کےلئے انسانی حقوق صرف کتابوں میں ملتی ہے ، فطرت یہی ہے جو طاقتور چاہتا ہے وہی کرتا ہے ۔ مگر کمزور اتحاد اور یکجہتی کے طاقت کو استعمال کرنے سے اپنےانسانی حقوق کی تحفظ کرسکتی ہے ورنا کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
میں ایک بات کہتا ہوں، بلوچستان میں انسانی حقوق کے ادارے بس نام کے باقی رہ چکے ہیں، یہاں وہ بھی بے بس ہیں۔ یاد ہو گا ایچ آر سی پی پسنی کے رہنما صدیق عیدو کو پاکستانی فوج نے سر عام گرفتار کرکے غائب کرنے کے بعد ان کو قتل کرکے انکی لاش پھینک دیا لیکن ایچ آر سی پی اور دوسرے انسانی حقوق کے اداروں نے ریاستی اداروں سے سوال کرنے کی جرات نہیں کی ، کیونکہ صدیق عیدو ایک بلوچ تھا، نہتے بلوچوں کے لئے صدا بلند کرتے تھے جس کی پاداش میں اُسے اٹھا کر قتل کیا گیا۔
میری ناقص رائے کے مطابق انسانی حقوق کے ادارے یہاں کچھ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں تو ہر ایک خوف کے مارے اپنی زندگی سے ڈر جاتا ہے۔ جسطرح خضدار میں نعیم صابر جو انسانی حقوق کے نمائندہ تھے انکو بے دردی سے انکے گھر میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے قتل کیا تھا لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں، کیونکہ یہاں انسانی حقوق کی پائمالی کے خلاف سوال کرنا گناہ ہے۔ یہاں انسانی حقوق پر کام کرنا جرم ہے۔ اور صحافی ہوکر حق اور سچ کو لکھنا منع ہے ، اگر کوئی غلطی سے کچھ لکھیں اور بولے تووہ بے دردی سے قتل ہوتی ہے۔ جس طرح حاجی رزاق سربازی ، رزاق گل ، جاوید بلو چ ایسے بہت سے نام ہیں جنہوں نے قلم اٹھاکر ظلم کے خلاف لکھتے تھے لیکن انکی قلم کو خاموش کرنے کےلئے انکو بے دردی سے قتل کیا گیا، کیوں؟ اس لئےانکا جرم یہ کہ وہ اپنے حق آزادی کے لئے لکھتے تھے۔
محکوم بلوچ کے فرزند تھے لیکن اصل جرم میں ملوث لوگ بہت بڑی طاقتور ہوتے ہیں، جس پر کو ئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ مجرم کو ئی اور نہیں بلکہ خود کو محافظ کہنے والے قاتل پاکستانی فوج ہے، یہاں تک آپ سمجھ لیں یہاں کیا کچھ ہوتا ہے یا کیا ہورہا ہے۔
اب تو اُس نوجوان انسانی حقوق کے کارکن کا ذکر کرتے ہیں، جو پسماندہ علا قے گچک سے تعلق رکھتا تھا لیکن انکا شعور اتنا بلند تھا کہ جبر کے سائے میں بلوچستان کے دبے ہوئے لوگوں کی آواز کے لئے انسانی حقو ق کے ادارے کی تشکیل کی، ادارے کو فعال کرنےمیں متحرک کردار ادا کیا، ان کو لوگوں کی بنیا دی انسانی حقوق کےلئے آواز اٹھانے کے جرم میں ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۷ کو گرفتار ہوکر غائب کیا گیا یعنی گذشتہ دو سال سے غائب ہیں، جس کا کوئی پر سان حال نہیں، ساتھ انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں۔ نواز عطاایک ہونہار طالب علم تھا، جو کراچی یونیورسٹی میں علم حاصل کررہے تھے۔ اُسے انکی رہائشگاہ گلستان جوہر کے ایک فلیٹ سے پاکستانی فوج اور رینجر نے گرفتار کرکے غائب کیا، اب تک جبر ی طور پرغائب ہیں۔ ان کا جرم یہی ہے کہ بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف صدا بلند کرتے اور دنیا تک یہ پیغام پہنچاتے تھے یہاں کیا کچھ ہوتا ہے خاص کر انسانی حقو ق کی پائمالی پر لکھتے تھے اور بولتے تھے۔ نواز عطا معاف کرنا یہاں کے معاشرے میں بے حسی چھا گئی ہے، درد اور تکلیف کا احساس کم ہے، اس لیئے لوگ بے حس ہوچکے ہیں۔ کوئی اس جرم کے خلاف نہیں بولتے، معاشرے کی ترقی کے لئے آپ جیسے نوجوانوں کی ضرورت کی شدت زیادہ ہے، جو معاشرے کی ترقی کا ریسرچ کرتے تھے، لیکن اب آپ عقوبت خانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں لیکن آپ کو خبر ہونا چاہئے کہ آپ کے بہادر ماں آپ کی دی ہوئی راستے پر چل رہی ہے، کہیں نا کہیں آپ کامیاب ہوئے کہیں پر آواز اٹھانے والے پائے جاتے ہیں۔
بی بی گل بلوچ ، طیبہ بلوچ اور عبداللہ بلوچ آپ کے کاروان کو آگے لے جانے میں دن رات ایک کررہے ہیں۔ یہاں کے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ آج بھی اسی سوچ کے ساتھ مگن ہیں، انکے سوچ بوسدہ ہیں، لالچ اور خوف کے شکار پائے جاتے ہیں، اور نام نہاد سول سوسائٹی بھی خاموش تماشائی ہے۔ آپ کو پتہ ہے جرم کے خلاف صدا بلند کرنے کےلئے علم کا ہونا لازمی ہے، وہی علم و زانت، شعور سے لیس ہوں۔
آپکو پہلے سے خبر تھا کہ ایچ آر سی پی کے نمائندے نعیم صابر اور صدیق عیدو کے ساتھ کیا ہو ا، لیکن اُس کےلئے انسانی حقوق کے اداروں نے خاموشی اختیار کی تھی۔ آج اس طرح آپ کےلئے بھی حسب روایات وہی ادارے خاموشی اختیار کرچکے ہیں، آگے بھی یہ ادارے خاموشی اختیار کرتے ہیں لیکن بلوچ نوجوان اپنا احتجاج دنیا کے ہر سطح پر کررہے ہیں لیکن دنیا طاقت کا سنتی ہے ہماری سنی ان سنی کرتے ہیں۔
میں ان سے آپکے متعلق کچھ کہتا ہوں، تاکہ کچھ احساس پیدا ہو جائے، نواز عطا گچک بلوچستان کا رہائشی تھا اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، کراچی میں اپنے پڑھنے کےلئے کراچی کا رخ کرتے ہیں، یہاں رات کو مزدوری کر کے اپنا پڑھائی جاری رکھا ہوا تھا۔ اسی طرح وہ اپنا تعلیم جاری رکھتے تھے، اس دوران کراچی میں تھے، میڑک کا طالب علم تھا انکے ایک رشتہ دار مندوست ۲۰۱۲ کو گچک سے خضدار ا کچھ کام کے لئے آئے تھے، وہ وہاں ایک مقامی ہوٹل میں رہائش پذیر تھے کہ وہاں سے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے رات کو چھاپہ مارکر گرفتار کیا، جو تاحال لا پتہ ہیں۔ نواز ہر روز اُس کے متعلق بات کرتے تھے، کیونکہ ایک مزدور کو اس طرح بے گناہ گرفتار کرکے غائب کرتے ہیں اور انکے گھر والوں کو اذیت دیتے ہیں، اسی سوال نے انکو انسانی حقوق کے متعلق پڑھنے کی طر ف متوجہ کیا، چلتے چلتے خود ایک بہت بڑی انسانی حقوق کے ادارے بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکریٹری بنے۔
جو اپنیےقوم کی دبے ہوئے لوگوں کی آواز بنے، لیکن چلتے چلتے دوسروں کی آواز اٹھانے والے خود لاپتہ ہوگئے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا بلوچستان میں انسانی حقوق کے متعلق کام کرنا جرم ہے؟ کیا نواز عطا مجرم ہے؟ اگر مجرم ہے تو دنیا کے سامنے میڈیا میں لاکر پاکستانی حکمران اور فوج اعلان کریں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق پر کام کرنا گناہ ہے۔ اس لئے نواز عطا مجرم ہے۔
دنیا سمیت بلوچ سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں کو باخبر ہونا چاہیئے کہ خاموش رہنا جرم ہے، اگر آپ اس جرم میں شریک ہونگے تو تاریخ آپ کو کھبی معاف نہیں کرے گا۔ آئیں نواز عطا سمیت تمام لاپتہ افراد کی آواز بنیں تاکہ اس طرح کی پالیسیوں کو ناکام بنائیں، لیکن یہ جاننا ہوگا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق پر کام کرنا جرم ہے، اس کےلیئے ہر پاکستانی سے سوال کہ کیوں اس طرح ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔