بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3745 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقعے پر ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی زیادتیاں اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان بھی گمشدگیوں اور قتل میں ریاست کے ملوث ہونے کی مذمت کررہے ہیں کہ بلوچ عوام کو درپیش سب سے بڑا خطرہ خفیہ اداروں کی طرف سے یہ جبری گمشدگیاں ہے۔
انہوں نے بلوچستان کی بدتر صورتحال کے لیے حکومت، فورسز اور سیاسی جماعتوں کو موردالزام ٹہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہر چیز کو ایک سازش کے طور پر دیکھنے ہیں اور بلوچ کے خلاف دروغ گوئیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بلوچوں کے خلاف زہرافشانی، الزامات اور اشارہ کنائیوں سے سے بلوچوں کو قصور وار ٹہرانے کوشش کی جارہی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ اگر طاقت کے استعمال سے عوام کے خواہشات کو دبایا جاسکتا ہے تو اس دنیا پر اس برادری کا راج ہوتا اور لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے پیش قدمی سے روک لیا جاسکتا لیکن سماجی قوانین، گروہوں اور افراد کے طاقت کے پابند نہیں ہے لوگ تواتر کے ساتھ اس طوق کو توڑنے میں کامیاب رہے ہیں جوکہ ان لوگوں کو امید بخشتی ہے جو ظلم اور نا انصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔