بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3759 دن مکمل ہوگئے۔ سکھر، سندھ سے سیاسی و سماجی کارکنان کے ایک وفد نے اللہ ڈنا کی سربراہی میں کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بھی لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے اور سندھیوں کی لاشیں بھی ویرانوں میں جنگلوں سے ملی ہے، کامریڈ حسین بخش تھیبو ایک آزمودہ نے کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کی تھی اس کے بعد وہ لاپتہ نہیں رہے بلکہ ان کی لاش ان کی کھوپڑی میں ماری گئی دو گولیں کے ساتھ نوری آباد کے قریب پائی گئی۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی دیگر علاقوں سے زیادہ دیکھی گئی ہے جبکہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا ارتکاب کبھی بھی انتخاباً نہیں کیا جاتا ہے یہ ان تمام افراد تک پھیلا ہوا ہے جو اختلاف رائے اور جداگانہ حیثیت سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ معاشی حقوق اور سماجی حقوق سے انکار بھی شدید ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کے ساتھ جسمانی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہمرقاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے تنظیمیں کام کررہے ہیں جن کو ریاست کی سرِعام مدد حاصل ہے جن میں مختلف تنظیمیں بلوچستان میں ریاست کی دست راست میں کام آرہی ہے۔ پاکستان نے ان تنظیموں کو اس لیے پال رکھا ہے کہ وہ وقت ضرورت عالم طاقتوں کو بلیک میل کرکے پیسے اور اسلحہ ہڑپ کرسکے جبکہ یہ تنظیمیں پاکستان مخالف ہر قدم کو کچلنے کے بھی کام آئی ہیں جس سے پاکستان کا کام بھی بن جاتا ہے اور عالمی قوانین کی پاسداری بھی ہوتی ہے کیونکہ دنیا کی نظر میں یہ کارنامے دہشت گرد گروہ کررہے ہیں۔