کرد مسئلہ : امریکہ اور ترکی کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا

230

 کرد مسئلے پر امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے 3 گھنٹے طویل ملاقات میں سیز فائر پر اتفاق کرلیا۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کی 3 گھنٹے طویل ملاقات میں بڑا بریک تھرو سامنے آیا ہے۔ امریکا نے ترکی کی شرائط تسلیم کرلیں، جب کہ کرد ملیشیا کے انخلاء کے لئے 120 گھنٹے کے سیز فائر پر اتفاق بھی کرلیا۔

اطلاعات  کے مطابق شمالی شام اور ترک سرحد کے درمیان 30 کلو میٹر طویل سیف زون بنایا جائے گا، جب کہ ترک فوج کا ہدف بھی یہ ہی تھا۔ ترکی کی جانب سے جنگ بندی پر رضا مندی کے بعد کردوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع مل سکے گا۔

  امریکہ اور ترکی کے درمیان جنگ بندی سے متعلق معاہدہ دارالحکومت انقرہ میں طے پایا گیا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ کرد جنگجوؤں کی تنظیم وائی پی جی اس معاہدے کو پورا کرے گی یا نہیں۔

  دونوں کے درمیان اہم پیش رفت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

کرد جنگجوؤں کے رہنما کمانڈر مظلوم کوبانی نے کہا ہے کہ کرد مسلح گروپ سرحد کے نزدیک موجود قصبے راس العین اور تال ابیاد کے درمیان علاقے کی حد تک اس معاہدے کی پابندی کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دیگر علاقوں کے بارے میں ابھی تک بات نہیں کی گئی ہے۔

چند ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام اور ترکی کی سرحد کے پاس موجود امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد ترکی نے سرحد پار جارحیت کا آغاز کر دیا۔

اس پیش قدمی کا مقصد سرحد پار کرد مسلح گروہ پیپلز پروٹیکشن یونٹ یعنی وائی پی جے کو پیچھے دھکیلنا تھا جسے ترکی کی قیادت وائی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں جو ترکی میں گزشتہ 3 دہائیوں سے کردستان کی خود مختاری کیلئے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔