پاکستان ٹس سے مس نہیں ہوتا
تحریر: سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان اور پاکستانی مائنڈ سیٹ دنیا میں شاید واحد بد قسمت لوگ مانے جاتے ہونگے جو اپنے منہ میاں مٹھوبنتے ہیں، جن کی باتیں کوئی بھی ذی شعور سن کر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہونگے کہ اس نوزائدہ ملک کے لوگ اتنے جاہل، ناسمجھ اور گنوار کیسے ہوسکتے ہیں؟ جو دنیا میں کٹورا لیکر اتنی رسوائی اور سبکی کے بعد بھی ایسے ڈینگیں مارتے ہیں گویا آدھی دنیا پر انکا سکہ چلتاہے۔ اور انہوں نے ہی اکہتر میں انڈیا کے ترانوے ہزار فوجیوں کو جنرل سمیت قیدی بنایا تھا یا حالیہ دنوں یمن میں انکی فوج نہیں یمنیوں کی فوج نے سعودی کے ساتھ مل کر انکے سامنے ہتھیار ڈالی تھی۔ یہ باتیں اورواقعات علاوہ اگرایک طرف سے نوزائید ملک کی مجموعی صورت حال کی ابتر زبوحالی دیکھا جائے اور دوسری جانب پنجابیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی بھڑک بازیوں سمیت بات کرنے کے انداز دیکھا جائے تو سامنے والا سنتے ہی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ زمین ابھی کے ابھی گڑھا بن جائے اور میں سسی پنھو کی طرح اس میں ہی غرق ہو جاوں، کیونکہ پاکستان اورپنجابی ٹس سے مس نہیں ہونے والے ہیں۔
وہ کبھی نمبر ون فوج کا راگ الاپتے ہیں تو کبھی اسلام کا ٹھیکدار، دہشت گردی کا ٹھکانہ اور دوسرے ملک خصوصاً دنیا کے سپر پاور ملک اور جمہوریت پسند ہندوستان کو ایسے دھمکی آمیز لہجے میں للکارتے ہیں جیسے خطے میں بسنے والے ممالک سے وہ بھیک نہیں مانگتے بلکہ انہیں ہی دیتے ہیں۔ یہ باتیں آپ وقتاً فوقتاً پاکستانیوں کے منہ سے سنتے آرہے ہونگے، مگر کچھ انکی موٹی موٹی نالائقیاں انکے ہی میجر کے زبانی آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا تاکہ ان کی بھڑک بازیاں دیکھ کر آپ کو یقین ہوکہ یہ ملک کتنی غیر ذمہ دار یعنی مظلوم کیلئے جابر وحشی اور طاقتور کے سامنے اسکی فوج کتنی جلدی خوف میں مبتلا ہوکر ہتھیار پھینکنے کیلے بے تاب ہوجاتی ہے۔
میجر سالک اپنی کتاب ”ڈھاکہ“ جنرل نیازی کی ہچکیاں میں لکھتے ہیں:
”جنرل نیازی کو گورنر اے۔ایم۔ مالک نے گورنر ہاوس بلایا تاکہ وہ ان سے جنگ کی اصل صورت حال معلوم کرسکیں۔ جنرل نیازی ۷ دسمبر کی شام کو گورنر ہاوس پہنچے تو عجیب تذبذب میں تھے ایک طرف ان کا جنریلی چہرہ تھا، جس پر وہ بہادری کا نقاب اوڑھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف اصلی جنگی صورت حال تھی جو ان کی نالائقی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ کیا وہ ایک سویلین گورنر کے سامنے جنگ کے چوتھے دن ہی اپنی بے بسی کا اعتراف کرلیں یا حسب معمول مزید کچھ عرصے تک اپنا بھرم قائم رکھیں۔ یہ ملاقات گورنر ہاوس کے ایک آراستہ اور پر سکون کمرے میں ہوئی۔۔۔۔ اس میں گورنر اور جنرل کے علاوہ اور سینئر افسر بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ شروع میں خاموشی طاری رہی۔ سب جنرل نیازی کا منہ دیکھتے رہے۔ پھر گورنر مالک نے آہستہ آہستہ گفتگو کا آغاز کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ زندگی دھوپ چھاوں ہے کبھی شکست کے سائے ان کی شہرت کو کجلا دیتے ہیں۔ گورنر مالک نے ابھی آخری جملہ کہا ہی تھاکہ جنرل نیازی کا چوڑا چکلا جسم یکا یک کپکپا نے لگا اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا اور بچوں کی طرح سسکیاں بھرنے لگے۔ گورنر نے اپنا بزرگانہ اور مشفقانہ ہاتھ بڑھاکر جنرل نیازی کے کندھے پر رکھا اور تسلی دیتے ہوئے کہا ”جنرل صاحب گھبرایئے مت ایک کمانڈر کی زندگی میں کھٹن دن آہی جاتے ہیں،آپ ہمت نہ ہاریں اللہ عظیم ہے“
جس وقت جنرل نیازی بلک رہے تھے گورنر ہاوس کا ایک بنگالی بیرا چائے کا خوان اٹھائے کمرے میں داخل ہوا اسے فوراً ایک افسر نے جھاڑ پلاکر واپس کردیا۔ اس نے باہر آکر اپنے ساتھیوں کو بتایا”اندر صاحب لوگ رورہے ہیں“ یہ بات گورنر کے پنجابی ملٹری سیکٹری نے سنی تو اس نے ڈانٹ کر انھیں چپ کرادیا۔
یوں گورنر مالک کو جنگی حال کا ایسا اندازہ ہوا جو موثر الفاظ میں بھی پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انھوں نے جنرل نیازی کی اشک شوئی کے بعد کہا: میرا خیال ہے مجھے خراب صورت حال سے صدر کو مطلع کردینا چاہئے تاکہ وہ جنگ بندی کا اہتمام کرسکیں۔“جنرل نیازی کا سر ابھی چھاتی کی طرف لٹکا ہوا تھا، انھوں نے سر اوپر اٹھائے بغیر ہولے سے کہا ”میں تعمیل کروں گا“چنانچہ گورنر نے صورت حال پر مبنی ایک تار صدر یحییٰ خان کو روانہ کردیا۔
جنرل نیازی واپس اپنے ہیڈ کوارٹر میں آئے، تو دروازے بند کرکے اپنے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اگلی تین راتیں اور تین دن انھوں نے اسی ذہنی کیفیت میں گذارے۔ مجھے اس وقت اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ میں حسب معمول ۸ اور ۹ دسمبر کی رات کو ان کے کمرے میں گیا۔ انھوں نے کہنیاں اپنی میز پر گاڑھ رکھی تھی اور سر دونوں ہاتھوں کے پیالے میں رکھا ہوا تھا۔ باہر سے آنے والے کو چہرہ صاف دکھائی نہیں دیتاتھا، اس لیئے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس وقت واقعی رو رہے تھے، البتہ ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس جملے سے ہوتا ہے جو انھوں نے اس موقع پر مجھ سے کہا۔ انھوں نے فرمایا: سالک”شکر کروکہ تم آج جرنیل نہیں ہو“اس سے بیشک ان کے گہرے کرب کا احساس ہوتاتھا۔ وہ مجھے بے بس لگے۔“
جب پنجابی ریاست اور اسکے اسٹیبلشمنٹ کی ظلم وزیادتیوں کے بابت بلوچ، پشتون اور سندھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان دنیا کو بتاتے ہیں تو اسی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک غیر مہذب اور درندگی نما جواب آتی ہے۔ اور انکے ڈی جی آئی ایس پی آر غفورا بڑے ڈیٹھائی سے کہتے ہیں کہ جنگ میں ہر چیز جائز ہے مطلب جب مظلوم اقوام فریاد کرتے ہیں کہ وحشی فوج اس کی ایجنسیاں ہمارے پیاروں پر مقدمات چلانے بجائے انھیں اغواء کرکے ان پر اذیت ڈھاکر انکی لاشیں مسخ، کر کے کیوں پھینکتی ہیں؟ تو جواب وہی مندرج بالا ملتی ہے۔
چنانچہ اسی فوج اور ریاست کو جب انڈیا لال آنکھیں دکھاتی ہے تو یہ کبھی بھیگی بلی بننا پسند کرتے ہیں تو کبھی نام نہاد شیر بن کر شاہین شاہین کا رٹ لگا کر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
دنیا کو اب فیصلہ لینا ہوگا کہ ایک طرف پاکستان مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے علاوہ دنیا میں دہشت گردی کو پروان چڑھا رہاہے تو دوسری جانب خالی بھڑک بازی سے اپنے ناکام ریاست کو تہذیب یافتہ دنیا کی چین اور سکون برباد کرنے کیلے دوام دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا اسے زمین پر ایک اضافی بوجھ سمجھ کر ختم کرنا چاہیئے جس کی آئندہ قطعاً کسی قوم یا ملک کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور ناہی وہ اس بھروسے کے قابل ہے کہ یہ ایک ذمہ دار ملک بننے کے قابل ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔