وائس چانسلر کی برطرفی اور حقیقی مسائل کی پردہ پوشی – امین بلوچ

140

وائس چانسلر کی برطرفی اور حقیقی مسائل کی پردہ پوشی

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والا جنسی ہراسگی کا بیہودہ و گھناؤنا فعل رونماء ہونے کے بعد کوئٹہ سمیت خضدار، کراچی،لاہور، اسلام آباد، ڈی جی خان اور دیگر شہروں میں زیر تعلیم بلوچ طالب علم کئی دنوں سے اپنے آئینی و قانونی حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں، طلبا و طالبات کے جم غفیر کا ایک سادہ مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر جنسی ہراسگی جیسے افعال کا سدباب کیا جائے اور ایسے اعمال میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ طلبا و طالبات کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ طلبا و طالبات کے پر امن آئینی و قانونی حقوق کے حصول کو کچھ عناصر نے فیمنزم یا عورتوں کے حقوق کی آڑ میں ختم کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرکے اس مسلئے کو صرف عورتوں یا طالبات تک محدود کرنے کی جدوجہد کی، حالانکہ یہ مسائل سماج میں بسنے والے تمام اجناس کا مسئلہ ہے کیونکہ ہراسگی کا سامنا معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کو مختلف طریقوں سے کرنا پڑرہا ہے۔ لیکن بلوچ طالب علموں نے صاف اور واضح الفاظ میں اس مسئلے کو قومی مسلئہ گردان کر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے آواز اٹھائی، جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی نصیب ہوئی کیونکہ انکے احتجاج میں مرد اور عورت میں جنسی تفریق دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایک ایسا طبقہ جو کسی نہ کسی طرح جنسی و جسمانی استحصال کے علاوہ سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی حوالےسے بھی ہراسگی اور استحصال کا شکار ہے۔

جامعہ بلوچستان میں پیش آنے والے غیر اخلاقی اور بیہودہ فعل کے انجام دہی کے خلاف طالب علموں کے احتجاج نے وائس چانسلر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں، جو بلوچستان کے احتجاجی طالب علموں کی اس مسئلے پر اولین کامیابی ہے۔ لیکن بلوچستان کے طالب علموں کا حقیقی مسئلہ نو آبادیاتی نظام تعلیم کے زہر آلود نظریات میں پنہاں ہے جو ایک طالب علم کو نفسیاتی، سماجی و تعلیمی حوالے سے بانجھ بننے پر مجبور کرتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام تعلیم کے خاتمے تک بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات مختلف طریقوں سے رونماء ہوتے رہیں گے اور طالب علم اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو خیر باد کہہ کر احتجاج و ریلیوں میں گزاریں گے جن سے انکی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

وائس چانسلر کی عہدے سے دستبرداری، اس واقعے میں ملوث کرداروں کی بیخ کنی سے سطحی مسئلے حل ہونگے لیکن حقیقی مسلئے اور بلوچستان میں تعلیم دشمنی میں ملوث اصل کردار ہمیشہ ہماری نظروں سے اوجھل تھے اور اوجھل ہی رہیں گے، اس لیئے طالب علم رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس احتجاج کو وسعت دیکر سیاسی بنیادوں پر اسکی جڑوں کو مضبوط کریں تاکہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرکلز دوبارہ بحال ہوں اور طلبہ حقوق کے اصل علمبردار طلبہ یونین بحال ہوں تاکہ مستقبل میں جنسی ہراسگی سمیت ہر قسم کی ہراسگی کا سدباب ہوسکے اور طالب علموں کو عالمی قوانین کے مطابق تمام حقوق فراہم ہوسکیں۔

بلوچستان میں سماجی مسائل سے لے کر تعلیمی و سیاسی مسئلوں کے کار فرما عوامل کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے، جو بلوچستان میں اپنے غیر قانونی تسلط کو طول دینا چاہتے ہیں اور اپنے مسلط کردہ نو آبادیاتی نظام تعلیم کے ذریعے بلوچ طالب علموں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود بنا کر انکی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو چھین کر انہیں بانجھ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ نوجوان انقلابی جہد کار بننے کے بجائے ریاستی امور کو تقویت فراہم کریں۔

بلوچستان کے سیاسی،سماجی اور تعلیمی مسائل کی جڑیں پاکستانی نو آبادیاتی نظام اور انکے نظام تعلیم میں پیوست ہیں، جب تک اس غیر اخلاقی و غیر انسانی نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا بلوچستان اسی طرح سلگتا رہے گا اور بلوچ بچوں اور بچیوں کو ہراساں کیا جاتا رہے گا اور ان مسائل کے اصل کرداروں کی جگہ چند کٹھ پتلیوں کوسزا دیکر اصل کرداروں کو بچایا جائے گا اور وہ عناصر بلا کسی رکاوٹ کے نئے مسائل کھڑے کرکے بلوچ سماج کو پراگندہ بنانے کی کوششیں کریں گی۔

بلوچستان یونیورسٹی کے معاملے میں وائس چانسلر کی برطرفی سے کیا بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں ناپید صحت مند سرگرمیاں پھر بحال ہوسکتی ہیں؟ نوجوان طالب علم اپنی ذہنی تسکین کے لئے کیوں منشیات استعمال کرتے ہیں کیا ان تمام عوامل میں استادوں کا کردار نہیں؟ یا وائس چانسلر کی برطرفی یا جنسی ہراسگی میں ملوث دیگر عناصر کو سزا ملنے کے بعد دیگر تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات رونماء نہیں ہونگے؟

دراصل حکمران طبقات نہیں چاہتے کہ بلوچ طالب علم یکجاء ہو کر اس نظام تعلیم کے خلاف جدوجہد کریں کیونکہ وہ ہمیشہ طلبہ طاقت سے خوفزدہ رہتے ہیں اس لئے وہ اس جدوجہد کو بدنام کرنے یا منتشر کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کریں گے اور وائس چانسلر کی برطرفی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس لئے طالب علم اس احتجاج کو وسیع کریں اور جب تک بلوچستان میں طلبہ یونین کو بحال نہیں کیا جاتا اور نو آبادیاتی نظام تعلیم کا خاتمہ نہیں ہوتا طلبہ تحریک کا سلسلہ ختم نہ کریں بلکہ اسے وسیع بنیادوں پر پھیلا کر اپنے آئینی و قانونی حقوق کو حاصل کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔