لائبریری کیلئے کوشاں بلوچ نوجوان – گہرام اسلم بلوچ

342

لائبریری کیلئے کوشاں بلوچ نوجوان

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

روز اول سے اس خطے میں بلوچستان کی ایک اسٹرٹیجک اہمیت رہا ہے اور جہاں تک اسوقت پاکستان اور چین کی دوستی کا تعلق ہے اس میں بھی بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت و افادیت کو نذرانداز کئے بغیر ( پاک، چین اقتصادی رہداری) سی پیک ایک کامیاب منصوبہ نہیں بن سکتا۔ مگر اسوقت المیہ دیکھو کہ جہاں سے پاک، چین دوستی کا جغرافیہ کا کردار ہے، اس صوبے کے لوگوں کو کیا ملا ہے؟ اسوقت یہ اپنی جگہ ایک بڑاسوال ہے۔ جس پہ مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔

سی پیک کے علاوہ بلوچستان کی پاکستان میں اپنی اسٹرٹیجک اہمیت اور ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحلی پٹی، ریکوڈک، سندک اور دیگر معدنیات، کرومائیٹ جیسے ساحل وسائل سے مالا مال صوبے کے باسی ہربنیادی انسانی اور سماج کے ضروریات سے محروم ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پاکستان کے کل رقبے کا 44فیصد رکھنے والا اس صوبے کی آبادی صرف ایک کروڈ بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے، مگر چھوٹی سی آبادی کے بلوچ ہر قسم کی بنیادی انسانی سہولیات سے روز بروز محروم ہوتے جارہے ہیں۔ پسماندہ صوبے کے نوجوان اور بزرگ کس کرب سے گذرتے ہوئے سب چیزوں کو اپنی بے بسی سے چُپ چاپ سے سہہ رہے ہیں کیونکہ ایک حد تک اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ اگر کسی نے بھی اسلام آباد یہ یہاں کے حکمرانوں سے کسی بھی بنیادی سہولیات کے لیے آواز بلند کی تو انکے لیے بھی پالیسی وہی اختیار کی جاتی ہے، برسوں سے یہاں کے ہر باسی خاموشی سے انکی زد میں آچکا ہے۔ پسماندگی کی آواز نے کیسا رُخ اختیار کرچکا ہے، مگر وفاق کے متعصبانہ رویے میں ابھی تک ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے۔

بلوچستان کے دیگر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اپنی جگہ اسوقت بلوچستان کا ایک انتہائی اہم ایک اکیڈمک مسئلہ ہے، جس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 34اضلاع پر مشتمل ایک کروڑ سے زائد کی آبادی رکھنے والے صوبے کے لیئے بلوچستان کی دارحکومت کوئٹہ میں صرف ایک ہی قائد اعظم پبلک لائبریری ہے، جسکی نشستوں کی تعداد چار سو طلبا اور سو طالبات ہیں جبکہ چار ہزار سے زائد طلبا و طالبات کی رجسٹریشن اب تک ہوچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر ڈسٹرکٹ میں ایک پبلک لائبریری ضروری تھا مگر ہرڈسٹرکٹ لائبریری اپنی جگہ پورے بلوچستان میں اسوقت صرف ایک میڈیکل کالج بولان میڈیکل یونیورسٹی ہے اور باقی تین نئے میڈیکل کالجز جو کہ اب اسٹیبلش ہوچکے ہیں، مگر انکے طلبا ابھی بھی اپنی کلاسز کے لیے کوئٹہ میں سراپا احتجاج تھے۔ اور ستر سالوں سے ایک ہی پبلک یونیورسٹی اب جاکے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی دور حکومت میں تربت یونیورسٹی کا اضافہ ہوچکا ہے۔

قائد اعظم پبلک لائبریری میں طلبا و طالبات کو اس لیئے دشواری کا سامنا ہے کہ پورے بلوچستان کے طلبا و طالبات میڈیکل انٹری ٹیسٹ، ڈائریکٹریٹ نشستوں کی تیاری کے لیے طلبا ور مقابلہ جاتی امتحان کے امیدوار پورے بلوچستان سے یہاں کوئٹہ میں بیٹھ کر تیاری کرنا انکے لیئے زیادہ آسان ہوگا۔ کوہلو، نصیرآباد، رخشان، جھلاوان مکران سے اسٹوڈنٹس تیاری کے لئے کوئٹہ آتے ہیں، کوئٹہ سے گوادر، تربت آٹھ سو کلومیٹر ہوگا اتنی دور سے آئے ہوئے طلبا و طلبات کو اپنے رہائش کے لیے پریشانی اپنی جگہ اور لائبریری میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہ ملنے کا مسئلہ اس پسماندہ صوبے کے طلبا کے لیئے بہت بڑی زیادتی ہوگی۔

حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ اپنے تعلیمی پالیسوں کے لیے جامع پالیسی اور کوئٹہ میں مزید لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنائے۔ صوبے میں قائم صوبائی حکومت ٹوئیٹر سرکار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں بھی منطق ہے کہ اگر بلوچستان حکومت اور سوشل میڈیا پر انکے حمایتیوں کے تعارفی کلمات سے بلوچستان سے باہر دوست یہی سجھتے ہیں کہ بلوچستان کے ستر سالہ پسماندگی کا خاتمہ ایک سال میں دور کردیا جارہا ہے، کوئی بیروزگار نہیں، ہر امیر و غریب کو اپنے ہی علاقے میں صحت کے تمام سہولیات میسر ہیں، جہاں غریب علاج کرتے ہیں وہاں امیر اور حکمران بھی ایک ہی لائن میں (او پی ڈی) میں ڈاکٹر کا انتطار کر رہے ہونگے، سرکاری سکولوں بھی تمام جدید سہولیات سے مستفید ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔