جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ حکومت ایک طرف مذاکرات کی دعوت اور دوسری طرف دھمکیاں دے رہی ہے اور ہمارے کارکنان کو گرفتار کیا جارہا ہے مگر ہمارا موقف واضح ہے۔ پہلے عمران خان استعفیٰ دیں پھر مذاکرات ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی دعوت اور دوسری طرف دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ہماری تنظیم انصار الاسلام پر پابندی لگانے کا منصوبہ بن رہا ہے۔ ایسی صورت میں مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک حکومتی مذاکراتی ٹیم نے مولانا فضل الرحمان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا مگر ہمارا موقف واضح ہے کہ پہلے عمران خان وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں، اس کے بعد مذاکرات ہوں گے۔
دوسری جانب حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک نے پریس کانفرنس میں پھر اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے کارڈز کھول دیے ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان مذاکرات کیلئے میز پر نہ بیٹھے تو نقصان پاکستان کا ہوگا۔ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا تو جواب ملے گا۔
پرویز خٹک نے کہا کہ اگرکوئی بات نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ کشمیر کا ایشو دبانے کیلئے ایجنڈا بنایا گیا ہے۔ لگتاہے یہ لوگ بھارتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔