سوشل ازم سائنس ہے | حصہ دوئم – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

206

سوشل ازم سائنس ہے | حصہ دوئم

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

بلاشبہ سوشلسٹ نظام کے قیام کے فوری بعد سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں اجتماعیت کے اصول پوری طرح سے عمل میں نہیں لائے جاتے کیونکہ سوشلسٹ معاشرے میں فرسودہ معاشرے کی باقیات کا عمل دخل عارضی ہوتا ہے۔ سوشلزم کی ترقی کے ساتھ ان باقیات پر بتدریج قابو پالیا جاتا ہے اور سماجی زندگی کے جملہ شعبوں میں اجتماعیت کے اصولوں کو زیادہ بھرپور انداز میں عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔

ہر چند کی سوشلزم تاریخی ارتقا کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے اور سوشلسٹ معاشرہ انتہائی ترقی پسند معاشرہ ہوتا ہے جو انسان کی آزادانہ فطرت سے میل کھاتا ہے پھر بھی سوشلزم کبھی خود بخود معرضِ وجود میں نہیں آتا۔ سوشلزم کو روبہ عمل لانے کے لیے ہمیں یہ کام کرنے کی اہل انقلابی قوتوں کو تیار کرنا ہوگا اور جدوجہد کا ایک صحیح طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ انقلابی قوتوں اور طریقہ کار کی تیاری تک سوشلزم کی آرزو کرنے والے عوام الناس کی آزادی و خودمختاری کی خواہش محض ایک حسرت رہے گی۔

استحصال جبرواستبداد اور سماجی عدم مساوات نیز نجی ملکیت جس کی بنیاد پر یہ قائم ہیں ان کو ختم کرنے اور قومی ملکیت پر مبنی ایک مساویانہ معاشرہ قائم کرنے کا تصور طویل عرصہ گزرا قدیم سوشلسٹوں نے پیش کیا۔ تاہم پرانے زمانے کے سوشلست استحصال زدہ محنت کش عوام کی حالت زار پر افسوس کرنے اور ان سے ہمدردی رکھنے کے باوجود انھیں استحصالی معاشرے کو دفن کرنے والی اور ایک نیا معاشرہ قائم کرنے والی انقلابی قوت سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے سمجھا کہ سرمایہ دارانہ معاشرے کے ناپسندیدہ و نامعقول پہلوؤں کو لوگوں کے ذہن روشن کرکے اور استحصالی طبقے میں خیرسگالی کے جذبات ابھار کر درست کیا جاسکتا ہے۔ استحصالی طبقے سے جس کی فطرت ہی میں لالچ ہے خیرسگالی کی توقع رکھنا خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔ استحصالی طبقے سے خیرسگالی کی توقع قدیم سوشلسٹوں کی تاریخی مجبوری تھی۔ استحصالی طبقہ اور ان کے حاشیہ برداروں نے طبقاتی تعاون کا نظریہ پیش کیا اور استحصال اور جبرواستبداد کے خلاف استحصال زدہ محنت کشوں کی جدوجہد کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ کمیونسٹ تحریک کے اندر مصلحین اور ترمیم پسندوں نے”طبقاتی تعاون“ کا مطالبہ کیا اور انقلابی تحریک کو سخت نقصان پہنچایا۔ آج سوشلزم کے غدار بھی سرمایہ داری کی واپسی کی دہائی دے رہے ہیں اور سامراجیوں سے ”امداد“ اور ”تعاون“ کی توقع کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ استحصالی طبقے سے ”خیر سگالی“ اور ”طبقاتی تعاون“ کی توقع رکھنا انقلاب کا ستیا ناس کرنا ہے۔

مارکس ازم نے سوشل ازم کے خواہش مند محنت کش عوام کو انقلابی قوتوں اور جدوجہد کے انقلابی طریقہ کار کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ مارکس ازم نے واضح کیا کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداواری قوتوں اور پیداوار کے تعلقات کے درمیان تضادات موجود ہیں اور یہ کہ یہ تضادات استحصالی طبقے کے خلاف استحصال زدہ محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی ختم کیے جا سکتے ہیں اور یہ کہ محنت کش طبقہ اس جدوجہد کا انتظام اور اس کی قیادت سنبھالے گا۔ مارکس ازم کے طفیل سرمایہ داری کے خاتمے کا ناگزیر ہونا اور سوشل ازم کا فتح مند ہونا ثابت کر دیا گیا تھا اور سوشل ازم کے آرزو مند استحصال زدہ محنت کش عوام کے مطالبات کو عملی انقلابی قوتوں اور ان کے مطالبات کو پورا کرنے والی جدوجہد کے انقلابی طریقہ کار سے جوڑدیا گیا تھا اس طرح سوشل ازم نے ایک تصوراتی منصوبے سے سائنس کی شکل اختیار کی اور آزادی کے لیے انسانیت کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔

بہر حال گزشتہ دور میں سوشل ازم کا تاریخ کے مادی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر نظریہ تاریخی قید سے آزاد نہیں تھا۔ اس نظریے نے سماجی اور تاریخی تحریک کو قوت متحرکہ کی تحریک سمجھنے کی بجائے اپنی قوت متحرکہ عوام الناس کے کردار کے ذریعے اور ان کی شہہ پر شروع ہونے اور ترقی پانے کی تحریک کی بجائے ایک فطری تاریخی عمل سمجھا جو مادی اور اقتصادی عوامل کے باعث تبدیل ہوتا اور ترقی کرتا ہے۔ تاریخ کے مادی زاویہ نگاہ کے مطابق سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداواری قوتوں میں جتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات کے مابین مختلف طرح کے تضادات اور استحصالی بطقہ اور استحصال زدہ طبقے کے درمیان دشمنی میں اتنی ہی شدت سے اضافہ ہوتا ہے اور محنت کش طبقہ اور دیگر انقلابی قوتوں کی طاقت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور یوں انقلاب میں بھی اتنی ہی پختگی آتی ہے۔ انقلابی جدوجہد میں مادی اور اقتصادی عوامل کو بنیاد کے طور پر دیکھتے ہوئے سوشل ازم کی پیش رو تھیوری انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کے بنیادی طریقے کے طور پر انقلاب کی قوتِ متحرکہ کو مضبوط بنانے اور اس کے کردار میں اضافہ کرنے کے فریضے کا تعین کرنے سے قاصر رہی۔

جہاں تک سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداواری قوتوں کی ترقی کے پیدا کردہ اثرات کا تعلق ہے تو ہمیں محض ایک طرف سے اس کا جائزہ نہیں لینا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداوری قوتوں کی ترقی کے پیدا کردہ اثرات کا تعلق ہے تو ہمیں محض ایک طرف سے اس کا جائزہ نہیں لینا ہوگا۔ سرمایہ دارنہ معاشرے میں پیداوری قوتوں کی ترقی اس دو طرفہ تفریق میں شدت پیدا کردیتی ہے جو امیر اور غریب کے مابین بڑھتے ہوئے عدم توازن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس سے طبقاتی تضادات میں تیزی آتی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ اجارہ داری کو طبقاتی تضادات نرم کرنے کے لیے اپنے بھاری منافعوں کا کچھ حصہ صرف کرنے کے بڑھتے ہوئے امکانات فراہم کرتی ہے۔ علاوہ ازیں پیداواری قوتوں کی ترقی کے نتیجے میں کسانوں اور تھوڑے بہت بورژوائی طبقات کی آمیزش سے صنعتی کارکنوں کی صفوں میں توسیع ہو جاتی ہے نیز پیداواری و غیر پیداواری شعبوں میں ذہنی و تکینکی مشقت میں مصروف کارکنوں کا تناسب بھی بڑھ جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔