تلخ حقیقت – زمین زھگ

1051

تلخ حقیقت

تحریر: زمین زھگ

دی بلوچستان پوسٹ

قوم ، نظریہ صفحہ ہستی سے کیوں مٹ گئے؟ کیوں مٹ رہے ہیں۔ آپ بخوبی جانتے سمجھتے ہونگے۔ کٹھن وقت اور حالات کے ادراک کی بنیاد پر فیصلہ اور غیر منصفانہ سیاسی اصطلاحات کی وجہ سے۔

کوئی کہے بلوچ قوم تیار نہیں ہے یا تیار ہے لیکن ڈر کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر ایسا ہے تو یہ ڈر ہمیشہ رہے گا کیوں کہ ظالم سے ہمیشہ ظلم کی امُید کی جاسکتی ہے اور وہ کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ قوم کو ہم نے کیا دیا ہے؟ کوئی ایسی سیاسی محاذ؟ قوم کے نوجوانوں کو کوئی پروگرام ؟ ہر گز نہیں ۔

کچھ دن پہلے سڑکوں پر اپنی بیٹوں کو تلاشتے ہوئے عورتیں جس میں دو مائیں راج بی بی اور بسخاتوں نے اپنی بیٹوں کو اسی تحریک اور وطن کیلئے قُربان کر دیا تھا۔ راج بی بی کی آنکھوں میں سے ٹپکتا ہر ایک آنسو آزادی مانگ رہی تھی۔ یہ اسی شہید بابر جان کی ماں ہے جس کو اُس کی بیٹے کی آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوئی اور اُس کے بڑے بیٹے اور بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر جان دس سال سے لاپتہ ہیں اور کس اذیت اور حیرت انگیز حالات سے گُذر رہا ہے، شاید کوئی ماں سمجھے اور راشد جان کے لمُہ بسخاتوں جس نے اپنی بڑے بیٹے شہید دلجان کو کس ناز اور بہادری سے زمین کے حوالے کر دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم کتنا تیار ہے۔ اور چند دوستوں کے جذبوں کی بنیاد پر لکھی گئی تحریریں کیا ہمیں اپنی زمہ داری، قومی ضرورت اور زمین کی حقائق کی بنیاد پر کٹھن فیصلہ کرنے پر مجبور کر دے گی؟ میں سمجھتا ہوں ہرگز نہیں۔

بہادُری، دیدہ دلیری کی اگر ہم بات کریں تو منصب جان ،حمل فتح، ریحان جان اور کئی ایسے نام ہمیں ملیں گے جو کہ واضحِ مثال ہیں کہ بلوچ نوجواں کسی بھی طرح کے قُربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے اور نہ ہی اپنے منزل سے ایک قدم پیچھے ہٹیں گے۔

آج بلوچ طلباء تنظیم کیا کر رہے ہیں، اور بلوچ ماس پارٹی کی دعویدار آیا وہی کام کر رہے ہیں جس کا آج قومی کاز ان سے تقاضہ کرتی ہے ؟ ہمارے دوست تحریک سے کیوں روپوش، جنگی منافع خور اور آزاد خیال ہو رہے ہیں؟ وہی طلباء تنظیم جو ماؤں کی ارمان اور بہنوں کی صدا ہیں۔ وہی ماس پارٹی جو قوم کی امُید ہیں آج وقت اور تلخ حقیقت پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو بخوبی ہم حقیقت کو نظرانداز اور اُس سے روپوش نہیں ہوسکتے۔

شہید جنرل اسلم کی کہی ہوئی بات ہمیشہ یاد آتی ہے کہ “ہم نے کچھ نہیں کیا بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ صرف اور صرف کچھ گاؤں راکھ ہوئے کچھ گھروں سے بے گھر ہوئے۔ ہماری ماؤں کی درد کا مداوا تین یا چار قُربانیوں میں نہیں ہے” ۔

اُستاد اسلم جان۔۔۔۔۔ وہ لیڈر جو بخوبی جانتے تھے کہ قومی ضرورت اور تحریک کے پنّے ہم سے کیا تقاضہ کر رہے ہیں ، جس نے ایک ایسے فیصلے کا انعقاد کیا جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ قوم میں ایک نئی اُمید دکھائی دے رہی تھی۔ کس وجہ سے ہوا کیوں ہوا ایک لیڈر کی مثبت سیاسی فیصلے سے اور ریحان جان کی قُربانی سے۔ کیا ہم اُس امید کو قائم رکھ پا رہے ہیں؟

اگر ہم آج اپنے دادا اور پڑ داداؤں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ سمجھیں کہ آنے والے نسلیں بھی اسی طرح ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ تحریکوں میں صرف جزبہِ قُربانی یا دیدہ دلیری سے آزادی کا قیام ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ اعلٰی و منفرد لیڈر جو عقیدے اور روایت سے ہٹ کر قوم اور زمین کے حقائق اور مضبوط فیصلے اور بہترین حکمت عملی سے تحریک کو نئی روپ بخشیں۔

پھر اگر یہی ہماری ماؤں کو رُلارہی تھی پریس کلب کے سامنے اور وہ ایجنسیز جو لمُہ راج بی بی و ہزاروں ماؤں بہنوں کو سڑکوں پر رُلا رہے ہیں ہزار بار سوچیں گے۔ چائنا و ان جیسی دیگر بیرونی قوتیں ہماری سرزمین کے بارے میں سوچ کیا، اُس پر نظر دوڑانے سے پہلے صدیوں تک سوچنے پر بے وس و لاچار ہو جائیں گے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔