تحریک – ظفر رند

223

تحریک

ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ ابھرتی ہوئی تحریک کیا اپنی منزل تک پہنچ پائے گی؟ یا ہمیشہ کی طرح کچھ دنوں کے شور زور کے بعد ختم ہوجائیگی؟ ویسے تو بلوچ قوم نے اپنی سیاسی تاریخ میں بہت سے تجربات کیے ہیں, مگر آج تک بلوچ قوم اپنی ابھرتی ہوئی تحریک کو مستحکم بنیادوں پر سیاسی طور پر منظم کرنے میں ناکام رہی ہے. ہر ابھرتے ہوئی تحریک کو کسی نہ کسی طریقے سے خاموش کیا جاتا ہے اور تحریک کے راستوں کو بند کیا جاتا ہے مگر بلوچ نوجوان شاید اسکو سمجھنے میں اور اس کا سائنسی تجزیہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہماری کوئی تحریک منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی جذباتیت کا شکار ہو جاتی ہے یا بکھر کے ختم ہو جاتی ہے.

ہر عوامی تحریک کو جب تک مضبوط سیاسی بنیادوں پر منظم نہیں کیا جاتا تو مقتدرہ قوتیں انہیں سیسٹمیٹک طریقے سے ختم کر دیتی ہیں.

لفظ تحریک کیا ہے؟
تحریک. جد و جہد کے لیے اٹھنے والے اس عمل کو کہتے ہیں جن میں محکوم و مظلوم طبقے یا قوم اکھٹے اور منظم ہو کر اپنی قوتوں کو بڑھایا کرتے ہیں اور انہیں بہتر کرتے جاتے ہیں اور ترقی دیتے ہیں تاکہ وہ تبدیلیاں جو مقصود ہوتی ہیں، انہیں عمل میں لایا جا سکے. تحریک کی مختلف قسمیں ہیں بعض تحریکیں پروگرام، تنظیم اور منصوبہ بندی کے بغیر ہوتی ہیں، جو خود رو ہوتی ہیں. اور بعض تحریکیں ایک منظم یا باقاعدہ سیاسی پروگرام اور سیاسی تنظیم کے زیر قیادت ہوتی ہیں جنہیں ( Systamatic) تحریکیں کہہ سکتے ہیں.

تاریخ بہت کم ایسے مواقع دیتی ہے لیکن بلوچ قوم کی خوش قسمتی یہی ہیکہ تاریخ انکو بار بار مواقع فراہم کر رہا ہے. مگر قوم ان ابھرتی ہوئی تحریکوں کو منظم کرنے میں آج تک پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائی ہے.

اس سال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین سے چار ایسے مواقع آئے ہیں__نوجوانوں کے پاس مگر وہ صرف سوشل میڈیا اور کچھ دنوں کے شور شرابے کے بعد ختم ہوگئی ہیں .اس سال کا سب بڑا تحریک بلوچستان یونیورسٹی سے ابھرا ہے جس کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی سے لیکر پنچاب تک ہر یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاج کیا اور پہلی بار تربت یونیورسٹی میں بھی انکے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آواز اٹھایا گیا.

اس ابھرتے ہوئے تحریک کو منظم کرنا طلباء تنظیموں کا تاریخی فرض ہے، اگر طلباء تنظیم اس ابھرتے ہوئے تحریک کو منظم کرنے میں ناکام ہوئے تو تاریخ انکو کبھی معاف نہیں کریگا اور ایسے مواقع بار بار نہیں دے گا.

میں تمام طلباء تنظیموں سے دست بستہ گذارش کرتا ہوں کہ اس موقع کو ضائع ہونے سے بچا لیں انکو سوشل میڈیا کے کیمپین کے حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ ایک ایسی حکمت عملی تردیب دے کہ اس مسئلے کا سدباب ہو سکے. اور آگے بھی بلوچ طلبا ہر ظلم اور نہ انصافی کے خلاف بلوچستان بھر میں منظم ہوکر آواز اٹھائیں . اگر اس تحریک کو ہم منظم کرنے میں ناکام رہے تو شاید ہمیں تاریخ یہ موقع دوبارہ نہ دے اور ہم اس غلطی کا ازالہ کبھی نہ کرسکیں۔ طلباء تنظیموں کا اتحاد و نظریاتی اپروچ وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔